زید گملے والی کہانی سے مالک بن بیٹھا اور سابقہ مالک کی طرح اس نے بھی شادی نہ کی اور نہ ہی اسکی کوئی اولاد ہوئی۔ دور اندیش ہوتا تو شادی کرتا، ملوکیت کو فروغ دیتا اور اس جھنجٹ سے جان چھڑاتا مگر بوڑھا ہونے پر وہی مسئلہ دوبارہ درپیش آگیا۔ سست تو ازل سے تھا۔ نئی ترکیب کہاں سوچتا سو پرانی والی میں ہی ترمیم کرلی۔ اور بیج تمام ڈائریکٹرز کے درمیان بانٹ دیا۔ خوبی قسمت دیکھیئے کہ تمام پرانے ڈائریکٹرز اپنے ساتھ ہونے والی ظلم کی داستا ں مشہور کر گئے تھے۔ تو تمام نئے اس کمینگی سے بخوبی آگاہ تھے۔
کچھ عرصہ بعد سب ڈائریکٹر اپنے بیج کے سڑنے کی باتیں کرنے لگے سوائے جگے کے جو پریشان تھا ۔ وہ خاموش رہتا اور اپنی خِفت کو مٹانے کیلئے مزید محنت سے دفتر کا کام کرتا رہا ۔ دراصل جگے نے پرانا گملا خرید کر اس میں پرانی مٹی ڈالی اور کھاد بھی نہ ڈالی۔ مگر پھر بھی بیج سے پودا اگ آیا جو اصل پریشانی کا سبب تھا۔
ایک ماہ بعد زید نے پھر سب ڈائریکٹرز کا اجلاس بلایا اور کہا کہ سب وہ گملے لے کر آئیں جن میں انہوں نے بیج بویا تھا ۔ سب اجڑے اور سوکھے سڑے گملوں کے ساتھ اجلاس میں پہنچے مگر جگا جس کا بیج اُگا ہوا تھا وہ خوبصورت پودے کے ساتھ اجلاس میں شامل ہوا اور ادارے کے سربراہ سے دُور والی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ اجلاس شروع ہوا تو سب نے اپنے بیج اور پودے کے ساتھ کی گئی محنت کا حال سنایا اور کہا کہ یہ نامراد پودا تو اگنے میں ہی نہیں آرہا۔ اور کسی دوشیزہ کے اخلاق کی مانند سڑتا رہا۔ اس اُمید سے کہ اسے ہی سربراہ بنایا جائے
سب کی تقاریر سننے کے بعد زید نے بھی حسب روایت کہا “ایک آدمی کم لگ رہا ہے” اور الفاظ کے چناؤ میں بھی تبدیلی نہ کی۔ اس پر جگا جو ایک اور ڈائریکٹر کے پیچھے چھُپا بیٹھا تھا کھڑا ہو کر سر جھکائے بولا “جناب ۔ مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے کیا مگر میرے والا بیج اگ پڑا ”۔ اس پر کچھ ساتھی ہنسے اور کچھ نے جگے کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ اک تو باقاعدہ لپٹ لپٹ کر رونے لگا۔ جگے نے اسے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں ہوتا رہتا ہے۔
چائے کے بعد زیدنے اعلان کیا کہ اس کے بعد جگا ادارے کا سربراہ ہو گا ۔ اس پر کئی حاضرین مجلس جو دوراندیش تھے اور پہلے سے سوچ رہے تھے کہ اس بار بھی کوئی گھٹیا پن تو لازمی ہوگا آرام سے بیٹھے رہے۔ بقیہ نے حیرانگی کا اظہار کیا۔ ادارے کے سربراہ نے کہا “اس ادارے کو میں نے اک گملے کی وجہ سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور میرے بعد بھی ایسا ہی آدمی ہونا چاہیئے اور جگا ہی وہ آدمی ہے جو محنتی ہونے کے ساتھ دیانتدار بھی ہے ۔ میں نے آپ سب کو صحیح اور بہترین بیج دیئے تھے جن کا نہ اگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ سوائے جگے کے آپ سب نے بیج اگانے کی زحمت بھی نہ کی"۔
اخلاقی سبق: اے بندے ۔ مت بھول کہ جب تجھے کوئی بیج اور گملا دے تو اسے اک بار اگا کر تو دیکھ لے۔ تیرا کیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے قسمت کھل جائے۔
کچھ عرصہ بعد سب ڈائریکٹر اپنے بیج کے سڑنے کی باتیں کرنے لگے سوائے جگے کے جو پریشان تھا ۔ وہ خاموش رہتا اور اپنی خِفت کو مٹانے کیلئے مزید محنت سے دفتر کا کام کرتا رہا ۔ دراصل جگے نے پرانا گملا خرید کر اس میں پرانی مٹی ڈالی اور کھاد بھی نہ ڈالی۔ مگر پھر بھی بیج سے پودا اگ آیا جو اصل پریشانی کا سبب تھا۔
ایک ماہ بعد زید نے پھر سب ڈائریکٹرز کا اجلاس بلایا اور کہا کہ سب وہ گملے لے کر آئیں جن میں انہوں نے بیج بویا تھا ۔ سب اجڑے اور سوکھے سڑے گملوں کے ساتھ اجلاس میں پہنچے مگر جگا جس کا بیج اُگا ہوا تھا وہ خوبصورت پودے کے ساتھ اجلاس میں شامل ہوا اور ادارے کے سربراہ سے دُور والی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ اجلاس شروع ہوا تو سب نے اپنے بیج اور پودے کے ساتھ کی گئی محنت کا حال سنایا اور کہا کہ یہ نامراد پودا تو اگنے میں ہی نہیں آرہا۔ اور کسی دوشیزہ کے اخلاق کی مانند سڑتا رہا۔ اس اُمید سے کہ اسے ہی سربراہ بنایا جائے
سب کی تقاریر سننے کے بعد زید نے بھی حسب روایت کہا “ایک آدمی کم لگ رہا ہے” اور الفاظ کے چناؤ میں بھی تبدیلی نہ کی۔ اس پر جگا جو ایک اور ڈائریکٹر کے پیچھے چھُپا بیٹھا تھا کھڑا ہو کر سر جھکائے بولا “جناب ۔ مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے کیا مگر میرے والا بیج اگ پڑا ”۔ اس پر کچھ ساتھی ہنسے اور کچھ نے جگے کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ اک تو باقاعدہ لپٹ لپٹ کر رونے لگا۔ جگے نے اسے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں ہوتا رہتا ہے۔
چائے کے بعد زیدنے اعلان کیا کہ اس کے بعد جگا ادارے کا سربراہ ہو گا ۔ اس پر کئی حاضرین مجلس جو دوراندیش تھے اور پہلے سے سوچ رہے تھے کہ اس بار بھی کوئی گھٹیا پن تو لازمی ہوگا آرام سے بیٹھے رہے۔ بقیہ نے حیرانگی کا اظہار کیا۔ ادارے کے سربراہ نے کہا “اس ادارے کو میں نے اک گملے کی وجہ سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور میرے بعد بھی ایسا ہی آدمی ہونا چاہیئے اور جگا ہی وہ آدمی ہے جو محنتی ہونے کے ساتھ دیانتدار بھی ہے ۔ میں نے آپ سب کو صحیح اور بہترین بیج دیئے تھے جن کا نہ اگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ سوائے جگے کے آپ سب نے بیج اگانے کی زحمت بھی نہ کی"۔
اخلاقی سبق: اے بندے ۔ مت بھول کہ جب تجھے کوئی بیج اور گملا دے تو اسے اک بار اگا کر تو دیکھ لے۔ تیرا کیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے قسمت کھل جائے۔
dafter k mahol ki khob tarjumany ki gae hai...:)
سرکاری ماحول :)