آپ نے آکر پشیمان تمنا کر دیا
پرانی بات ہے، جب میری عمر کوئی دس سال کے قریب تھی۔ان دنوں نیکی کا نشہ سا چڑھا رہتا تھا۔ یہ نیکی کا نشہ بھی عجیب تھا۔ فجر ہو کہ عشاء، کوشش ہوتی تھی کہ نماز مسجد میں پڑھی جائے اور اذان بھی خود دی جائے۔ کتنی ہی بار صرف اس لیے گھنٹہ پہلے مسجد پہنچ جاتا کہ اذان دوں گا۔ انہی دنوں مسجد میں ایک آدمی کا آنا شروع ہوا۔ اس کی شاید ایک آنکھ ضائع ہوچکی تھی۔ بہرحال اس کی آنکھ کے ساتھ کچھ مسئلہ تھا۔ اور مجھے اس سے بہت سارے مسائل تھے۔ ایک تو وہ مجھے اذان نہیں دینے دیتا تھا۔ خود دیتا تھا۔ اور دوسرا جب نماز کے لیے صفیں باندھی جاتیں تو وہ ہم بچوں کو پچھلی صف میں کھڑا ہونے کا حکم دیتا۔ ہم جو اس مسجد کو اپنا سمجھا کرتے تھے۔ اس رویے سے بےحد شاکی تھے۔ اور دل ہی دل میں پیچ و تاب کھایا کرتے۔ پھر ایک دن کرنا یہ ہوا کہ امام صاحب کسی وجہ سے غائب تھے ، اور ان کے غائب ہونے کا ان موصوف نے فائدہ اٹھایا اور بھاگ کر امامت کی مسند پر جلوہ افروز ہوگئے۔ اس کے بعد تو یہ کھیل ہی بن گیا۔ امام صاحب کبھی نہ ہوتے یہ موصوف امامت کرواتے۔چونکہ یہ ہم بچوں کو شور کرنے پر ڈانٹتے اور نہ اذان دینے دیتے اور نہ ہی اگلی صف میں کھڑا ہونے دیتے تھے تو وقت کے ساتھ ہماری ان سے سرد جنگ بڑھتی چلی گئی۔ اچھا ایک دلچسپ بات جو میں نے نوٹ کی کہ جب موصوف امامت کرواتے تو رکوع و سجود میں جاتے وقت “اللہ اکبر” انتہائی گلوگیر سی آواز میں ادا کرتے گویا رو رہے ہیں۔
ایک دن ایسا ہوا کہ میں اذان دینے لگا تو اس شخص نے مجھے ہٹا دیا اور خود اذان دی۔ مجھے بہت برا لگا۔ تھوڑی دیر بعد جب جماعت کھڑی ہونے لگی تو ہم سب بچوں کو پچھلی صف میں بھی کھڑا ہونے کا حکم دیا گیا۔امام صاحب موجود نہیں تھے تو یہ صاحب بھاگ کر امامت کروانے کو بھی کھڑے ہوگئے۔ یوں تو مجھے شرارتی ہونے کا ایسا کوئی دعویٰ نہیں اور میں بڑا سیدھا اور شریف سا بچہ ہوتا تھا ۔تاہم ، ایک تو وہ یک چشم گُل دوسرا ہم بالکل اور تیسرا ان کی روتی ہوئی آواز۔ ہمارے ذہن میں شیطان کا مجسم ہوجانا کچھ اچھنبے کی بات نہ تھی۔ اب جو رکوع میں جانے لگے تو میں نے انتہائی روتے انداز میں بہ آواز بلند “اللہ اکبر” کا نعرہ بلند کر دیا۔ میرے ساتھ صف میں موجود بچے “کھی کھی کھی” کرنے لگے۔ میں نے رکوع سے دائیں بائیں دیکھا اور انہیں بلند آواز میں ہنسنے سے منع کیا۔ پھر سجدے کی باری آئی تو پھر یہی حرکت۔ عصر کی جماعت تھی۔ دوسری رکعت تک پہنچتے پہنچتے تمام نمازی حضرات بھی مسکرانے اور ہنسنے لگے۔ مسجد میں دبی دبی ہنسی گونجنے لگی۔ تیسری رکعت تک تو ہم باقاعدہ کھلکھلا کر ہنسنے لگے اور یوں ہی آوازیں لگانے لگے۔ ایسے بھی بچے نہیں تھے کہ یہ اندازہ نہ ہو کہ بعد از جماعت کیا ہوگا۔ سو تیسری رکعت سے جیسے ہی چوتھی کے لیے جماعت قیام میں کھڑی ہوئی۔ ہم تمام کے تمام بچے وہاں سے کھسک لیے اوراپنے اپنے گھر آگئے۔ اس کے بعد کتنے ہی دن میں اس مسجد میں نہیں گیا۔ مسجد بدل لی۔ اور پھر کبھی جانا بھی ہوتا تو ابو کے ساتھ جاتا۔ یہ واقعہ میرے ذہن سے محو ہو ہی چلا تھا کہ ایف ایس سی کے دوران اسی مسجد میں جانا ہوا۔ جماعت کھڑی ہوچکی تھی۔ بھاگم بھاگ جو جماعت کے ساتھ ملا تو ایک مانوس سی روتی ہوئی آواز میں “اللہ اکبر”، “سمع اللہ لمن حمدہ” سنا۔ بےاختیار نماز میں ہی مسکراہٹ نے آن گھیرا اور بقیہ نماز اسی واقعہ کی جزئیات یاد کرتے کرتے مکمل کی۔ چور آنکھوں سے حضرت کو دیکھا۔ اور پھر گھر آگیا۔ گھر والوں کو یہ قصہ سنایا۔ اور بہت لطف لیا۔
لاہور کے ابتدائی قیام کے دوران ایک دن بابا نے بتایا کہ یار وہ فلاں شخص فوت ہوگیا ہے۔ میرے ذہن میں وہ آدمی موجود نہ تھا تو بابا نے نشانی کے طور پر بتایا کہ یار وہ کبھی کبھار امامت بھی کرواتا تھا ا وراذان بھی دے دیا کرتا تھا۔ یہ سننا تھا کہ سر شرمندگی سے جھک گیا۔ تو وہ یک چشم گُل گزر گیا۔ احساس ندامت نے آن گھیرا۔ پہلی بار سوچ بیدار ہوئی ، اس سے معافی ہی مانگ لیتا۔ وہ بچپن کی نادانی سمجھ کر معاف کر دیتا۔ موقع گنوا دیا تو نے۔ دل نے بہت ملامت کی۔ اب آپ احباب اگر یہ سمجھیں کہ میں اس بات سے سدھر گیا اور جا کر اس کی قبر پر معافیاں مانگنے لگا تو آپ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ بس تبدیلی یہ آئی کہ جب میں کسی کو یہ واقعہ سناتا تو آخر میں ایک سنجیدہ سی شکل بنا کر یہ بھی کہتا ، یار، اور آج وہ زندہ ہوتے تو میں ان سے معافی مانگ لیتا۔ اگرچہ کبھی کبھار مجھے لگتا کہ اس شرارت پرمجھے کوئی ندامت نہیں ہے۔
گزشتہ سال چھوٹی عید کی بات جب ہم سب عید نماز کے لیے مسجد پہنچے۔ بابا امام سے عید ملے بغیر مسجد سے نہیں نکلتے سو اس دن ہم ایک خلقت سے بغلگیر ہوتے ہیں۔ یہ بغل گیر ہونے کا عمل بھی ایسا ہوتا ہے کہ پتا نہیں چلتا کس کس سے عید مل لی ہے۔ سب سے ملتے ملتے جب محراب تک پہنچے تو امام صاحب سے عید ملنے سے پہلے مجھے ایک شخص بڑی گرمجوشی سے عید ملا۔ میں نے بزرگ کو دیکھا تو ان کی آنکھ کو کوئی مسئلہ تھا۔ وہ بڑی گرمجوشی سے مجھے کہنے لگے۔ کیسے ہو؟ اسلام آباد ہی ہوتے ہو؟ میں ان سے کہا جی، ابھی چند دن قبل لاہور منتقل ہوا ہوں۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔ مسجد سے نکلتے ہی میرا اور بابا کا مکالمہ کچھ یو ں ہوا۔
میں: بابا! یہ شخص تو فوت ہو چکا تھا؟
بابا: یہ کب کی بات ہے؟
میں: آپ نے مجھے بتایا تھا۔
بابا: تمہیں دھوکا ہوا ہے۔
میں: میں اتنے عرصے سے ہر کسی کو کہہ رہا ہوں کہ یہ فوت ہوچکا ہے۔ اور اگر یہ زندہ ہوتا تو میں اس سے معافی مانگ لیتا۔
بابا: عجیب آدمی ہو تم۔۔۔۔۔ (ہنستے ہوئے) ۔۔۔ پتا نہیں کس کی قبر میں کس کو لٹا رکھا ہے۔
چھوٹے بھائیوں کا ایک مشترکہ فلک شگاف قہقہہ۔
اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ اب کسی کو واقعہ سناتے وقت کیسے کہوں گا، "یار! اگر آج وہ زندہ ہوتے تو میں ان سے معافی مانگ لیتا۔"
ہماری ناقص رائے میں بہتر ہوتا کہ آپ یہ مراسلہ شائع کرنے کی بجائے تھوڑا حوصلہ کر کے سابقہ معمول پر ہی کاربند رہتے۔
اب بھی ویسے کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ ہم کون سا موصوف کو جانتے ہیں؟ یوں بھی گلوگیر آواز کون سی شناخت ہے؟ تو اب کیا آپ کو عطاءاللہ عیسیٰخیلوی کا بھی مجرم سمجھا جائے۔
جانے دیجیے، حضور۔ منا بھائی بن کے لگے رہیے۔ بس یہ مراسلہ حذف کر دیجیے گا۔ 😜
ویسے ایک طریقہ تو یہ بھی ہے کہ بلاوجہ ہی اسکے لئے درجات کی بلندی اور مغفرت کے لئے دعا کر دیا کریں۔۔ جس بھی دنیا میں ہوئے، انہیں اور آپ کو بھی فائدہ پہنچ جائے گا۔۔۔
اگر آپ کے علاقے کے لوگوں نے یہ تحریر پڑھی، تو آپ کے علاقے کی کسی مسجد میں آئیندہ ہونے والی اسی طرح کی بچوں کی شرارت کا ذمہ دار آپ کو بھی ٹھہرایا جاسکتا ہے۔۔۔
ہاہاہاہاہااااا۔۔۔ شکریہ راحیل بھائی۔۔۔۔
اب تو میں خود بچوں کو ڈانٹنے کی عمر میں آچکا ہوں۔
شکریہ فرخ بھائی