Tuesday 19 July 2016

افسانچہ: تیری صبح کہہ رہی ہے۔۔۔۔

9 comments
تمام دوست خوش گپیوں میں مصروف تھے، لیکن وہ خاموش بت بنا بیٹھا خالی نظروں سے سب کو دیکھ رہا تھا۔ پیشانی پر سلوٹیں اور آنکھوں کے گرد حلقے بہت گہرے نظر آرہے تھے۔بار بار گردن کو دائیں بائیں ہلاتا جیسے درد کی وجہ سے پٹھوں کو آرام دینے کی کوشش کر رہا ہو۔ آنکھوں کی سرخی سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ گزشتہ کئی دن سے سو نہیں پایا۔  کافی دیر گزرنے کے بعد بھی جب برخلافِ طبیعت اس کی طرف سے کوئی جملہ کسی بھی موضوع پر سننے کو نہ ملا تو احباب اپنی گفتگو ترک کر کے اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ پہلے نے ایک گہری نگاہ اس کے سراپے پر ڈال کر پوچھا۔
یہ تمہاری آنکھوں کے گرد حلقے اتنے گہرے کیوں ہیں؟ کس کا غم سوہان روح بنا ہوا ہے؟ دوسرے نے سوال اٹھایا۔
بولو بھی!  کیا زبان گروی رکھ دی ہے؟ تیسرے نے جملہ چست کیا۔
خدا کے واسطے! اب یہ نہ کہہ دینا کہ تمہیں اس عمر کسی مٹیار سے عشق ہوگیا ہے.جبکہ تمہارا ایک پاؤں قبر میں اور دوسرا کیلے کے چھلکے پر ہے۔ ایک نے جھلا کر کہا۔
پھر سب چپ ہوگئے۔ اس نے سب پر ایک گہری نگاہ ڈالی۔ اور پھر آہستہ سے بولا۔
میں آجکل نائٹ شفٹ بھی کر رہا ہوں۔ 

نوٹ: پتا نہیں اس کو افسانچہ بھی کہنا چاہیے کہ نہیں۔۔۔ خیر جو بھی ہے۔ 

9 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔