یہ ان بھلے دنوں کی بات ہے جب مولوی نے شہر اقتدار میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ دفتر میں مولوی کی نشست ملک صاحب اور چوہدری کے ساتھ تھی۔ شاہ جی ان کے بالکل عقب والی کرسی پر سویا کرتے تھے اور جب کبھی جاگ رہے ہوتے تو فرماتے تھے کہ یہ لوگ میرے عقب میں بیٹھتے ہیں۔ بات ان کی یوں بھی درست تھی کہ شاہ جی خود تو کم ہی بیٹھا کرتے تھے۔ زیادہ تر میز کو تکیہ بنائے فون کو کسی حسینہ کا ہاتھ سمجھ کر تھامے محو استراحت ہوتے تھے۔ آخر ہم سے رہا نہ گیا اور شاہ جی سے ایک دن پوچھ ہی بیٹھے کہ فون کو اتنی محبت سے پکڑ کر کیوں سوتے ہیں۔ کیا کسی کے لوٹ آنے کا امکان باقی ہے۔ اس پر شاہ جی نے صرف ہنسنے پر اکتفا کیا۔ یوں بھی ہمارے درمیان ایسی کوئی بےتکلفی نہ تھی کہ شاہ جی ہماری اس بات کا جواب دیتے یا جواباً ہم پر کوئی فقرہ کستے۔ اب یہ سوال اس لیے نہیں پوچھتے کہ بےتکلفی کے سبب شاہ جی اصل بات ہی نہ بتا دیں۔ پہلی چند ملاقاتوں میں ہم شاہ جی کو مکہ پلٹ حاجی سمجھتے رہے۔ وجہ یہ کہ ہم نے اتنا منڈھا ہوا سر حاجیوں اور عمرہ کر کے پلٹنے والوں کا ہی دیکھا تھا۔ لیکن مہینوں بعد بھی بالوں کی طوالت میں اضافہ نہ ہوا تو ہم سمجھ گئے کہ یہ حاجی پلٹ حلیہ ڈھونگ ہے۔ درحقیقت شاہ جی ایک پلٹے ہوئے حاجی تھے جس کا ادراک ہمیں مدت کی آشنائی کے بعد ہوا۔ شاہ جی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کی عادات کا تذکرہ ہو تو سامع فوراً کہتا ہے کہ بالکل ایسا ہی ایک دوست میرا بھی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب شاہ جی سے تعارف ہوا تو ہم نے بھی یہی کہا کہ شاہ جی آپ جیسا ایک دوست ہمارا بھی ہے۔
شاہ جی کے قدوقامت کی مثال عمران سیریز کے "جوانا" سے دی جا سکتی ہے۔ لحیم شحیم، جتنا لمبا، اتنا چوڑا۔ ایک دن اپنی دونو ں کلائیوں کو اکھٹا جوڑ کر فرمانے لگے آج میں نے ایک لڑکی دیکھی جس کی کمر قریباً میری ان کلائیوں جتنی ہوگی۔ اس پر مولوی نے برجستہ کہا۔ شاہ جی مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ کو موٹی عورتیں پسند ہیں۔مولوی کا فرمانا اپنی جگہ بالکل بجا تھا ۔ شاہ جی کی کلائی کی گولائی ایک عام آدمی کی ران جتنی تھی۔ اس پر دونوں کلائیاں ملا لی جائیں تو کمر کسی پنجابی ہیروئن ہی کی بنتی ہے۔ ہمارے ذہن میں مشہور زمانہ گانے کے بول رقص کرنے لگے۔ پٹ 28 کڑی دا، 87 ویٹ کڑی دا۔ مردوں سے بات کرتے وقت چشمہ اتار دیا کرتے تھے۔ اور صنف مخالف سے بات کرتے وقت چشمہ اتار کر شیشے صاف کر کے دوبارہ لگا لیتے تھے۔ پتا نہیں اس میں کیا رمز تھی۔ ہاں یہ بات ہمیں ضرور معلوم تھی کہ بغیر چشمے کے شاہ جی کوئی ساڑھے تین سینٹی میٹر تک دیکھ لیتے ہیں۔ پاس کھڑا دوست ان کو دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن ہمالہ پر کھڑے ہو کر کراچی ساحل پر پھرتی لڑکیاں دیکھ لیا کرتے تھے۔ ان کی اس دوربیں نگاہ اور حرکات کے سبب ہمیں محسوس ہوتا کہ شفیق الرحمن کا کردار "شیطان" تحاریر کی دنیا سے نکل کر مجسم ہوگیا ہے۔
ایک دن ہم، مولوی اور شاہ جی جب جمعہ نماز کے لیے نکلے تو راہ میں شاہ جی کو پتا نہیں کیا سوجھی۔ مولوی کو چھیڑتے ہوئے کہنے لگے کہ اگر یہ بڑا ساکھمبا آپ کے سر پر گر پڑے تو آپ اور چھوٹے ہو کرکوہ قاف سے درآمد شدہ لگیں گے۔ اس پر ہم نے کہا کہ اگر یہی کھمبا آپ کے سر پر گر پڑے تو آپ چھوٹے ہو کر عام انسان لگیں گے۔ شاہ جی نے مسکراتے ہوئے دستِ شفقت راقم کے کاندھے پر رکھا، جس کا اثر راقم الحروف نے ایڑی تک محسوس کیا۔
شاہ جی کے قدو قامت کا اندازہ ان کے چہرے مہرے سے نہیں ہو پاتا تھا۔ اور اس کا وہ بہت ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔ ایک دن مجلسِ یاراں میں اپنی دلیری کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے۔
میں شمالی علاقہ جات سے واپس آرہا تھا۔ راستے میں ایک موٹر سائیکل والے نے انتہائی فضول انداز میں بائیک سڑک پر لہرایا جس کی وجہ سے گاڑی نے ہلکی سی تھپکی اس موٹر سائیکل کو دے دی۔ میں نے دیکھا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے تو نہ گاڑی آہستہ کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی رکا۔ لیکن اس موٹر سائیکل سوار نے دیکھا کہ ایک "لڑکا بالا" گاڑی اڑائے لے جا رہا ہے سو فوراً گاڑی کے پیچھے اپنا موٹر سائیکل لگا لیا۔شاہ جی کے منہ سے اپنے لیے "لڑکا بالا" کے الفاظ سن کر تمام سامعین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لیکن شاہ جی نے سب کو نظرانداز کر کے اپنی بات جاری رکھی۔ لڑائی بھڑائی سے میں یوں بھاگتا ہوں جیسے سپین میں لوگ بھینسے کے آگے بھاگتے ہیں۔اب میں سوچ رہا تھا کہ اس سے جان کیسے چھڑاؤں۔ خیر آگے ایک ہوٹل پر جب میں نے گاڑی روکی تو وہ فوراً میرے دروازے والی طرف آگیا۔ میں سکون سے نیچے اتر کر جب اس کے سامنے کھڑا ہوا تو اس کے چہرے کی رنگت ہی بدل گئی۔ اس غریب کو ایسی ہی مایوسی ہوئی جیسی کسی لڑکی کا نمبر سمجھ کر ملانے والے آوارہ اور بدقماش لڑکے کو لڑکے کی آواز سننے پر ہوتی ہے۔ اور وہ گھبرا کر کہتا ہے۔ "جی فلاں سے بات ہو سکتی ہے۔"اس کا سر بمشکل میرے سینے تک پہنچ رہا تھا۔ میں نے پوچھا۔ "جی فرمائیے!" تو اس کی زبان بھی لڑکھڑا گئی اور کہنے لگا کہ "دیکھیے! ہمارا بھی سڑک پر حق ہے۔" میں نے کہا تم اتنی دور مجھے بس یہی بات بتانے آئے ہو تو وہ بےچارہ دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ آخر میں نے اس کو ایک عدد ہلکا سا دھکا دیا اور اندر کی جانب چلا آیا۔ شاہ جی نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ اس دن انہوں نے شکرانے کے کتنے نفل پڑھے تھے۔
کھیلوں کے بےحد شوقین تھے۔ اکثر ان کا نعرہ ہوتا تھا ۔"کھیڈاں نہ کھیڈن دا ں گے۔۔۔۔ " بقیہ احباب علم و عمل کی محاورہ فہمی پر چھوڑ رہا ہوں۔ کئی ایک تو دبے دبے لفظوں میں کہہ بھی دیتے کہ آپ تو کھیل لیتے ہیں۔ انہی دنوں میں شاہ جی کو فوس بال (گڈویوں والا فٹبال) کھیلنے کا شوق ہوگیا۔ عالم یہ تھا کہ شاہ جی کے ہاتھ بال آجاتی تو اتنی زور سے شاٹ مارتے کہ بال مخالف سمت کی دیوار سے ٹکرا کر اپنے ہی گول میں جا چھپتی تھی۔ کئی بار تو گیند نے باہر آنے سے انکار کر دیا کہ جناب یہ آدمی بہت زور سے مارتا ہے۔ دیکھنے والوں کا یہ بھی فرمانا تھا کہ ایک آدھے فٹبالر کی ٹانگ توڑ دی ہے۔ اگر وہ راڈ سے بندھے نہ ہوتے تو یقیناً باہر آجاتے۔ اس پر ہمارا خیال یہ ہے کہ اگر ہو بندھے ہونے کی وجہ سے باہر نہیں آسکتے تھے تو دل میں گالیاں ضرور دیتے ہوں گے۔ اچھے کھلاڑی کو اپنا پارٹنر بناتے اور جیتنے کی صورت میں خود رقص ابلیسی فرماتے۔
ایک دن مجھ گناہ گار سے فرمانے لگے کہ آئیں فوس بال کھیلتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ جہاں شاہ جی ایک قدم اٹھاتے میں چار پانچ قدم اٹھاتا۔ لیکن بندہ بشر تھا۔ سو کوتاہی ہو گئی اور جب فوس بال کی میز تک پہنچا تو شاہ جی میرے سے ایک قدم آگے ہوگئے۔ وہاں پر ایک بہتر کھلاڑی پہلے سے کسی پارٹنر کی راہ تک رہا تھا۔ فوراً اس کے ساتھ ہاتھ ملا کر مجھے کہنے لگے۔ آپ نے دیر کر دی۔ محفل یاراں میں جب شاہ جی کی اس بےرخی کا تذکرہ کیا تو مولوی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ہم پریشان ہوگئے ۔ الہی خیر۔ اے مولوی! بتا تو سہی ماجرا کیا ہے۔ اے شخص تو رو کیوں رہا ہے۔ چشم فلک نے ایسا کون سا منظر دکھلا دیا کہ آج سربزم تیری آنکھ چھلک گئی۔ اس پر وہ مرد بےقرار ، پیکر زہد و انکسار یوں گویا ہوا۔
تمہارا یہ واقعہ سن کر مجھے ایک شام کا قصہ یاد آگیا ہے۔ ہاں وہ شام ہی تھی۔ عام سی شام تھی لیکن پھر ایسی بات ہوئی کہ وہ شام بہت خاص بن گئی۔ آہ! اس کو یاد کر کر کے میرا کلیجہ چھلنی ہوا جاتا ہے۔ سنو اے نادان دوستو! تمہیں میں اپنی سادگی اور شاہ جی کی چالاکی کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ یہ شخص جسے دنیا شاہ جی کے نام سے جانتی ہے میرے پاس آیا۔ میں ایک دفتری کام میں غرق تھا۔ اس پر آدھے سامعین کی آنکھوں میں حیرت عود کر آئی۔ مولوی نے مجلسی حیرانی کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے بات جاری رکھی۔ اس نے مجھے کہا کہ آؤ نیچے جا کر فوس بال کھیلتے ہیں۔ میں اس قدر مصروف تھا کہ میں نے اسے اشارے سے منع کیا۔ لیکن اس نے میرے اشارے کو ایک طرف کرتے ہوئے کہا کہ خبردار! دفتر میں اس قسم کے اشارے کرنا اخلاقی گراوٹ کی نشانی ہے۔ میں خود بھی سوچ میں پڑ گیا کہ میں نے اشارہ کیا کیا ہے۔ اس نے جب مجھے تذبذب کے عالم میں دیکھا تو کہنے لگا کہ آئیں۔ فوس بال کھیلنے سے طبیعت تروتازہ ہوجائے گی۔واپس آکر کام کر لیجیے گا۔ میں جو کافی دیر سے دفتری الجھن کا سرا ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا مجھے اس کی بات میں صداقت نظر آئی۔ میں اس کے ساتھ کھیلنے کی جگہ تک جا پہنچا۔ وہاں پہلے ہی دو ٹیمیں آپس میں کھیل رہی تھیں۔ ہم ان کا کھیل دیکھنے لگے۔ باتوں باتوں میں شاہ جی نے تگڑی والی ٹیم کو چیلنچ مار دیا۔ اور کہنے لگے کہ اگر خدانخواستہ تم لوگ اس ٹیم سے جیت گئے تو پھر ہم دیکھنا تمہارا کیا حشر کریں گے۔ میں شاہ جی کے اس چیلنچ پر حیران ہو رہا تھا کہ میری کھیلنے کی صلاحیت جاننے کے باوجود وہ اس ٹیم کو چیلنج کیسے دے رہے ہیں۔ اتنی دیر میں ایک اور اچھا کھلاڑی وہاں آن پہنچا۔ تگڑی ٹیم کے جیتنے کے بعد جب میں نے شاہ جی کے ساتھ میز سنبھالنے کی کوشش کی تو یہ مجھے کہنے لگے کہ مولوی۔ یار ذرا چیلنج لگا ہوا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں اس اچھے کھلاڑی کے ساتھ کھیل لوں۔ شاہ جی اس حرکت کا تگڑی ٹیم کو بھی اتنا دکھ ہوا کہ وہ اسی دکھ میں ہار گئے۔
مولوی کا واقعہ ختم ہونے پر ہم نے دیکھا کہ وہاں اور بہت سارے لوگوں کی آنکھیں اشکبار تھیں۔پس منظر میں چلتی موسیقی کسی فلمی تھیم کی طرح ماحول پر اثرانداز ہورہی تھی۔
ایک ہم ہی نہیں
جسے دیکھو یہاں
وہی آنکھ ہے نم
ایک طرف سے ہلکی سی آواز آئی۔ ٹیبل ٹینس پر میرے ساتھ بھی یہی ہوا جبکہ دوسری جانب سے یہی صدا بلئیرڈ کے نام سے سنائی دی اور پھر باقی آوازیں ہچکیوں میں دب گئیں۔ "؏ - بجھتا کہاں بھڑک گیا رونے سے سوز غم" سب کے چہروں پر ایک ہی کہانی لکھی ہوئی تھی ۔ ادھر ہمارا وہ حال تھا کہ "میرا اس کا غم سانجھا تھا۔ میں اس کو کیسے بہلاتا"۔جبکہ شاہ جی کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ رقصاں تھی۔
نوٹ: اس خاکے کے تمام کردار تخیلاتی ہیں۔ کسی بھی قسم کی "سو فیصد" مشابہت محض اتفاقیہ ہوگی ۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔