Wednesday, 3 December 2014

پنجابی محاورات کی شرح۔۔۔ ایک عزیزی کے استفسار پر

3 comments


 آلکسیاں دے پنڈ وکھرے نئیں ہندے۔۔۔۔

یہ ایک ایسا محاورہ ہے جس میں زندگی کی بڑی حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے۔چاہے طنز ہی کی صورت ، کہ سست لوگ بھی دیکھنے میں عام لوگوں جیسے لگتے ہیں۔ جبکہ سب جانتے ہیں کہ یہ چنے ہوئے افراد ہوتے ہیں۔ جو کہ کسی بھی معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ سست اور کاہل لوگ سدا سے دوسروں کے لئے باعث حسد و رشک رہے ہیں۔ لوگ چاہ کر بھی سستی نہیں کر پاتے۔ کیوں کہ اس کے لئے جس حوصلہ برداشت اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے عموماً وہ بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا جب جب کسی آلکسی سے آشنا ہوتی ہے اس کو سمجھتی ہے شاید یہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہے۔ وگرنہ اس قدر حوصلہ ہمت و برداشت اللہ اللہ۔۔۔ "یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔" دوسری طرف وہ لوگ جو اپنی برق رفتاری پر نازاں ہوتے ہیں وہ اس مصرعہ کی صورت "پہلے تھے تیزروی پر نازاں اب منزل پر تنہا ہیں" خود کو محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ سچا آلکسی کبھی بھی تنہائی کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ کاررواں کے اس معتبر اور ذمہ دار شخص کی طرح ہوتا ہے جو کہپیچھے پیچھے آتا کہ اگر کسی کی کوئی چیز رہ گئی ہو اور اپنی برق رفتاری میں کچھ عوامل کو نظرانداز کر گیا ہو تو اس کو احساس دلا سکے۔ لیکن بےلوث خدمت کے جذبے کودنیا کہاں سمجھتی ہے۔ امتیازی سلوک کر کے ہر قدم پر ان کو احساس دلاتی ہے کہ تم سست ہو۔ اور یہ بھول جاتی ہے کہ دنیا تو وجود ہی سستوں سے ہے۔ کیا ایک تیزرفتار مکھی ایک کچھوے کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ کہاں کچھوے کی عمر رواں، کہاں سمندر سمندر خشکی خشکی کے تجربات اور کہاں چند دنوں کی ایک زندگی جس کا ہرکام بنا سوچے عجلت میں۔
ہمارے ایک محترم دوست کا فرمانا ہے کہ کیا دنیا میں کاہلی سے بڑا بھی کوئی سچ ہے۔ حضور کی اس بات سے ہم اسقدر متاثر ہوئے تھے کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ایک کوچہ آلکساں کی بنیاد رکھیں گے۔جو کہ عرصہ پہلے ہم نے رکھ بھی دی تھی۔ اور اس محاورے کو غلط ثابت کریں گے۔ دنیا کو بتائیں گے کہ ہر آدمی سست نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ آپ کے درمیان رہتا ہے۔ تو قدر کیجیے کہ بجائے اس کے وہ کوچہ آلکساں میں جابسے اور تمہاری بستیاں محض عجلت کی تصویر بن کر رہ جائیں۔اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ عجلت کن لوگوں کا کام ہوتا ہے۔

 آٹے دی بلی بناواں میاؤں کون کرے ۔۔۔۔

دھوکا دینا اور دھوکا کھانا انسان کی فطرت ہے۔ ہر دور انسانی میں انسان نے کچھ ایسے ہتھکنڈے ضرور ایجاد کئے رکھے ہیں جس سے وہ معصوم اور بھولے بھالے لوگوں کو بیوقوف بنا سکے۔ درج بالا محاورہ بھی ایک ایسے ہی دور کی ایجاد ہے جب انسانی عقل شعور کے کچھ مراحل طے کر چکی تھی۔ اور لوگ ظاہراً ہر بات دیکھ کر اس پر یقین نہ کیا کرتے تھے۔ بلکہ اس کے دیگر عوامل کے بارے میں سوالات کر لیا کرتے تھے۔ یہی وہ دور تھا جب نقادی کے فن نے زور پکڑا اور ہر قسم کے کام کے لئے اس کے کچھ اصول وضع کر لئے گئے تھے۔
جس دور میں محاورہ ایجاد ہوا اس دور میں ٹھگی بہت عروج پر تھی۔ اور لوگ بہت ہی چھوٹی سی چیز کو بھی بڑی بتا کر عوام کو ٹھگ لیا کرتے تھے۔ لیکن محاورہ بنانے والے کے ذہن کے پاس سے بھی یہ بات نہ گزری کہ بلی گونگی بھی ہو سکتی ہے۔ بعد کے لوگوں نے جب گونگی بلیوں پر تحقیق کی تو اس کے بعد سے اس محاورے کی شہرت میں خاطر خواہ کمی آئی۔ چونکہ یہ محاورہ ٹھگی کے بنیادی اصولوں کو بیان کرنے کے لئے بنایا گیا تھا کہ جب کچھ دھوکے کا کام کرو تو اس کے بنیادیلوازمات پورے کر لو۔ اور اس کا اطلاق عہد حاضر کی جدید ٹھگیوں پر نہیں ہوتا۔ جہاں پر ایک بات پر لوگ تیس تیس سال ایک ہی جماعت کو حکمران رکھتے ہیں۔ جبکہ نہ اس کے پاس بلی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ میاؤں کرتی ہے۔

 آئی موج فقیر دی لائی جھگی نوں اگ

عملی زندگی میں آپ کا بارہا ایسے لوگوں سے سامنا ہوتا ہے جو خوشی ہو یا غم نقصان اپنا ہی کرتے ہیں۔ سیاست کی زبان میں ان کو عوام کہتے ہیں۔ جبکہ کتابی زبانمیں اس کو موج میں آیا فقیر کہتے ہیں۔ دونوں صورت میں بات ایک ہی رہتی ہے کہ عوام قرض و امداد کے ٹکڑوں پر پلتی ہے اور فقیر ان ٹکڑوں پر پلنے والوں کےٹکڑوں پر۔ لہذا دونوں جب خوش ہوں تو ایک ہوائی فائرنگ کر کر کے آتش بازی کر کر کے اپنے ہی گھر جلا لیتا ہے۔ دوسرا جس کے پاس کچھ خریدنے کو نہیں ہوتاوہ کہیں سے ماچس خرید کر آتش بازی کا مظاہرہ کرتا ہے کہ گھاس پھونس ہی تو ہے دوبارہ جمع کر لوں گا۔ قصہ مختصر یہ ایک انتہائی عملی محاورہ ہے۔جس میںہمارے معاشرتی رویوں پر شدید تنقید کی گئی ہے۔

 آدمیاں نوں آدمی ملدے نیں تے کھواں نوں کھو

اپنی طرف سے اس محاورے میں بہت ہی بڑا انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا مکافات عمل ہے۔ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ یہ تمام کتابیباتیں ہیں۔ بعض لوگ ساری عمر دھوکا دیتے ہیں اور پھر بھی وہ بیچارے جلاوطنی کی زندگی کے نام پر ہیرو رہتے ہیں۔کچھ بیویوں کے مقروض رہتے ہیں جبکہ ان کیبیوی کا کوئی کاروبار ہی نہیں ہوتا۔ بعض بیچارے اتنے غریب ہوتے ہیں کہ اپنے ملک میں مساجد میں بیٹھے رہتے ہیں۔ لیکن کاروبار باہر کے ممالک میں کرتے ہیںتاکہ اس ملک میں تبدیلی کا عمل شروع ہو سکے۔ اور تمام "آدمی" ان کنووں سے پانی نکلنے کی آس میں ان کے اردگرد جمع رہتے ہیں۔ الغرض یہ ایک ایسا بیکارمحاورہ ہے۔ جس کی عملی مثالیں عہد حاضر میں ڈھونڈنا بہت ہی مشکل ہے۔

3 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔