Tuesday 22 January 2013

پابست سامعین

2 comments
تمام لوگ اس مقرر کی باتیں سنکر بوریت سے پہلو بدل رہے تھے جو بڑی دیر سے انسانی مسائل پرکتابی قسم کی گفتگو کر رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہر شخص کے ساٹھ فیصد مسائل اس کے خود کے پیدا کردہ ہیں۔ اور بقیہ انکا ردعمل ہیں۔حاضرین کی اک بڑی تعداد کے چہرے پر اکتاہٹ کے آثار واضح تھے۔بزرگ حضرات اک دوسرے کی طرف دیکھ کر آنکھوں آنکھوں میں مسکرا رہے تھے۔ گویا کہہ رہے ہیں کہ میاں یہ راگ برسوں سے سن رہے ہیں۔،ہم سب جانتے ہیں۔ اور نوجوان طبقہ کی اکثریت کافی دیر سے آپس میں سرگوشیو ںمیں مصروف تھی۔ دو نوجوان آپس میں کچھ یوں محو گفتگو تھے۔
پہلا؛ اگر ایسی تقاریب میں آنا فیشن نہ ہو تو میں کبھی پاؤں نہ رکھوں۔ جب کہ دوسرا کہہ رہاتھا اچھابھلا موج میں تھا۔ خدا غارت کرے تیری نہ ہونے والی بھابھی کو۔ بلوا لیا اس بکواس محفل میں۔ اب خود دو قطاریں آگے بیٹھی اپنے ابا حضور کے کاندھے پر سر رکھے سو رہی ہے۔
مقرر نے بھی سامعین کی عدم دلچسپی محسوس کر لی۔ چنانچہ اس نے ناظرین کی توجہ دوبارہ اپنی گفتگو میں لانے کے لیئے اک فنکاری کا مظاہرہ کرنے کا سوچا۔
اس نے سو ڈالر کا نیا کڑکڑاتا نوٹ جیب سے نکال کر حاضرین کےسامنے لہراتے ہوئے پوچھا، کون ہے جو یہ سو ڈالر کا نوٹ لینا چاہے گا؟ اس حرکت پر بزرگوں کے چہروں پرعارفانہ قسم کی مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔ نوجوان طبقے نے ایسی نظرو ں سے مقرر کو دیکھاجیسے اس کی ذہنی حالت پر شدید قسم کا شک ہے۔ لیکن مروتاً یا جانے انجانے سبھی نے ہاتھ کھڑا کر دیا۔ کہ دیکھیں تو سہی کرتا کیا ہے۔ مقرر نے کہا ٹھیک ہےنوٹ تو ایک ہی ہے اور میں صرف ایک ہی شخص کو دونگا مگر پہلے ذرا یہ دیکھیئے۔ اور ساتھ ہی اس نے نوٹ کو مسل کر چر مر کیا، ہتھیلی پر رگڑ کر گولا بنایا اور پھر پوچھا، کون ہے جو نوٹ کو اس حال میں بھی لینا پسند کرے گا؟ اس کی اس حرکت پر اک نوجوان دوسرے سے یوں مخاطب ہوا۔ میں اس کو جانتا ہوں جناب۔ اس نے تو کبھی کسی کو اپنا بخار نہیں دیا۔ ایویں بیوقوف بنا رہا ہے سب کو۔
مگر لوگوں کی طلب میں کوئی بھی کمی نہیں آئی تھی،الٹا لڑکے بالوں کے ہاتھ کھیل لگ گیا۔ اور وہ کہنے لگے۔ کہ جیسا بھی ہے چلے گا ۔ دوڑے گا۔ مقرر نے اپنا وار کارگر ہوتے دیکھا۔ تو کھیل جاری رکھنے کا سوچا۔اس بار مقرر نے نوٹ کو زمین پر پھینک کر اپنے جوتوں سے مسل دیا۔حاضرین کی اکثریت نے یہ بات نوٹ کی کہ جوتے مٹی سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ اس پر اک بزرگ نے پھبتی کسی۔ میاں پیدل آئے ہو۔ تمام حاضرین ہنس پڑے مگر مقرر بدمزا نہ ہوا۔ اس نے مٹی سے لتھڑے بے حال نوٹ کو واپس اٹھا کر حاضرین سے پوچھا کیا وہ نوٹ کو اس حال میں بھی لینا چاہیں گے؟
اور اس بار بھی طلبگاروں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی اور لوگوں کے ہاتھ ویسے ہی اٹھے ہوئے تھے۔ اس پر اک آدمی ساتھ بیٹھے سے کہنے لگا۔ لکھوا لو میرے سے۔ یہ نوٹ کسی کو نہیں دے گا۔ شغل لگا رہا ہے۔ مقصد سب کو اٹھانا تھا۔ اب سب کی توجہ اس کی طرف لگی ہوئی ہے۔ دوسرے نے ہنس کر کہا۔ ڈالروں کی بھوک دیکھ کر تو لگتا ہےکہ تمام حاضرین کا تعلق سیاست سے ہے۔اک پلٹ کر کہنے لگا۔ نہیں کچھ فوج کے بھی ہیں۔ انکی یہ باتیں سنکر اردگرد کے لوگ بھی ہنسنے لگ پڑے اور ان سب نے شرمندہ ہو کر ہاتھ نیچے کر لیئے۔ اک آدمی کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہنے لگا۔ کہ ہاتھ تو صرف اس لیئے اٹھایا تھا کہ دیکھیں کرتا کیا ہے۔ اس پر قطار میں موجود باقی لوگ بھی تائیدی انداز میں سر ہلانے لگے۔ اور بات شروع کرنے والوں کے چہرے پر ایسی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔جیسے کہنا چاہتے ہیں۔ عذر گناہ بد تر از گناہ

مقرر نے نوٹ واپس اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ نوٹ تو میں تم لوگوں کو نہیں دیتا ۔ اس پر وہ نوجوان جس نے بخار والی بات کی تھی۔ اس نے اردگرد یوں فاخرانہ انداز میں نظر ڈالی کہ کیا سکندر نے فتوحات حاصل کر کے مفتوح قوموں پر ڈالی ہوگی۔
مقرر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ مگر ایک سبق ضرور دینا چاہتا ہوں جو ابھی ابھی میں نے اخذ کیا ہے اور وہ سبق یہ ہےمیں اک گھنٹے سے بول رہا تھا، مگر کوئی میری باتوں کو اہمیت دینے پر تیار نہ تھا۔ جیسے ہی میں نے اک نوٹ نکالا۔ سب کی توجہ ادھر مرکوز ہوگئی۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ پیسوں کےساتھ چاہے جو بھی سلوک کر لو اُن کی قدر میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اُن پیسوں کے طلبگار اور لینے والے ویسے ہی رہتے ہیں۔ میرا نوٹ نیا نکور اور کڑکڑاتا ہوا سو ڈالر کا میں نے ابھی اے-ٹی-ایم سے نکالا تھا، رگڑا ، جوتوں کے تلوے سے مسلا اور مٹی میں لتھڑا ہوا بھی سو ڈالر کا ہی ہے۔ اس کی قیمت میں کہیں سے کوئی کمی نہیں آئی۔ اس پر حاضرین میں سے اک منچلا بولا۔ اور سر جی! پرانا نوٹ تو اصل ہونے کی نشانی ہے۔ اس کو زیادہ پرکھنا نہیں پڑتا۔ اس پر محفل کشت زعفران بن گئی۔ اک اور بولا۔ یہ کونسی مشین ہے جس میں سے ڈالر نکلتے ہیں۔ اک بزرگ نے لقمہ دیا۔ بیٹا یہ سیاسی اے-ٹی-ایم ہے۔ اس پر حاضرین بڑی دیر تک ہنستے رہے۔
مقرر نے کہا کہ جناب یہاں جگتوں کا مقابلہ نہیں ہو رہا۔ براہ کرم موضوع سے نہ ہٹیں۔ اور میری آخری دو باتیں بھی سنتے جائیں۔
انسان بھی کئی بار نامساعد حالات، محدود اسباب، مستقل ناکامیوں اور معاشرتی رویوں سے دلبرداشتہ ہوجاتا ہے۔ مگر اس چیز کو سر پر سوار کرنے کی ضرورت نہیں۔ حالات جیسے بھی ہوں انسان کو اپنی قیمت کم نہیں کرنی چاہیئے۔ یہ تقریر کرتا کرتا مقرر جذباتی ہوگیا۔
اس پر حاضرین میں سے اک نے کہا۔ یار تو نے یہ بات کرنے کے لیئے ہمیں لالچ دیا تھا۔ یہ کتابی باتیں تو ہمیں ماں باپ بچپن سے سکھا رہے کہ اپنی قیمت میں کمی نہ آنے دو۔ مگر تجھے اک تلخ حقیقت کا درک نہیں کہ دنیا کہ اس میلے میں کسی کی قیمت اس انسان سے زیادہ دوسرے لوگ مقرر کرتے ہیں۔ اگر یہ سو ڈالر کا نوٹ میری جیب میں ہوتا تو میں بھی ایسی باتیں کر سکتا تھا۔ یہ سنکر وہ مقرر دم بخود رہ گیا۔ اور حاضرین نے اس آدمی کو بہت داد دی۔

اخلاقی سبق: لوگوں کو اخلاقی اقدار اور نامساعد حالات پر غم زدہ ودلبرداشتہ نہ ہونے کا درس آپ صرف اس وقت دے سکتے ہیں۔ جب انکے پاس ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کو مناسب ذرائع میسر ہوں اور پھربھی وہ دل ہار بیٹھیں۔

2 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔