Saturday, 2 November 2013

آلکسی

2 comments
سستی اور انسان کا دوستانہ کتنا پرانا ہے۔ اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ بعض سست دانوں کے نزدیک یہ تب سے ہے جب سے انسان وجود میں آیا۔ جبکہ بعض روایات کے مطابق تب سے ہے جب سے انسان نے کھچوا دریافت کیا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پہلے سستی نہ ہوتی تھی۔ اور اگر ہوتی بھی تھی۔ تو اس کا نام کچھ اور تھا۔ تاہم کچھ قدیم کچھوؤں نے اس بات پر اپنے اعتراضات محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ اور بوجہ سستی ریکارڈ کروانے سے قاصر ہیں۔ قدیم زبانوں میں اس کیفیت کو پوستی کیفیت سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔ جب کہ کچھ کہ ہاں آلکسی کا لفظ مستعمل ہے۔
جوں جوں انسان نے ترقی کی۔ اس نے آلکس کو بھی ترقی دی۔ آج کے مشینی دور میں سستی اوج کمال پر پہنچی نظر آتی ہے۔ زیادہ نہیں تو تھوڑا پیچھے جا کر دیکھیں۔ جب ٹی وی چینل بدلنے کو بھی لیور گھمانا پڑتا تھا۔ بہت سے لوگ محض اس لیے بھی ایک ہی چینل دیکھتے تھے کہ کون لیور گھمائے۔ لیکن اب وہی کام ایک تیز رفتار ریموٹ سے سست سے سست آدمی بھی سکون سے کر لیتا ہے۔ جوں جوں اس ضمن میں انسان نے ترقی کی ہے۔ سستی کے معیار بھی بلند ہوگئے ہیں۔ اوراب اس منزل پر پہنچنے کے لیے سخت گیان اور تپیسیا کی ضرورت ہے۔ ہر کوئی سست نہیں کہلا سکتا۔ پرانے زمانے میں لوگ خود بتاتے تھے کہ ہم سست ہیں۔ گو کہ یہ دعویٰ کرنے والے تو آج بھی موجود ہیں۔ مگر فی زمانہ سست وہی ہے۔ جس کو اس کے گھر والے اور معاشرہ سست تسلیم کرلیں۔
یہ بات گو کہنے میں بہت آسان نظر آتی ہے کہ ہر آدمی اپنے گھر والوں سے سستی کی سند لے آئے۔ اور اپنے تئیں سست کہلائے۔ لیکن سست بھی بڑے استاد سست ہیں۔ ایک نظر میں بھانپ لیتے ہیں کہ واقعتاؐ سست ہے یا پھر سستی کا سوانگ بھر رکھا ہے۔

Tuesday, 8 October 2013

آٹھ اکتوبر 2005 از قلم نیرنگ

8 comments
عجب یاسیت نے گھیر رکھا ہے۔ آٹھ سال بیت گئے۔ آج صبح سے ذہن دفتری کاموں میں الجھا ہے۔ ایک لمحہ فرصت کا میسر نہیں آیا۔۔۔ شام ہوئی تو تنہا بیٹھتے ہی یہ یادیں ملنے آگئیں۔۔۔۔ میں رات کو ملازمت کرتا دن کو پڑھتا تھا۔ ابھی دفتر ہی میں موجود تھا۔ گھر کو روانگی کی تیاری تھی۔ زمین سے قریبا 40 فٹ نیچے منزل پر بیٹھا تھا کہ زمین ہلنے لگی۔ دیواروں میں شگاف پڑ گئے۔ اور اعصاب آن واحد میں شل ہوگئے۔ سب کو نکلنے کا عندیہ دیا۔ سب سے آخر میں میں اور ایک دوست نکلے۔ یونہی ذہن میں خیال آیا کہ فائل روم پر نظر مار لوں۔ شاید کوئی انجان نہ رہ گیا ہو۔۔۔ ویسے تو اس قیامت سے کوئی انجان نہ رہا ہوگا۔

@فلک شیر بھائی نے آواران کی بات۔۔۔ ہم نے بھلا دیا۔۔۔۔ ہم نے یاد ہی کب رکھا کسی کو۔۔۔ دانشور کہتے ہیں کہ ہم نے سبق نہ سیکھا۔ ہماری ذہنی استعداد ہی کہاں ہے سبق سیکھنے کی۔۔۔ بلوچستان میں قیامت گزر گئی۔۔۔۔ لب تک نہ ہلے۔۔۔ آٹھ سال ۔۔۔ آٹھ سال۔۔۔۔ میری زندگی کے قیمتی آٹھ سال گزر گئے۔۔۔ کتنے ہی چہرے محو ہوگئے ذہن سے۔۔۔۔ زلزلے سے کیا انکار کروں۔۔۔ قدرت کے سامنے کیا سر اٹھاؤں۔۔۔ یہ سب تو اشارہ ہے۔۔۔ لیکن ان کھلے اشاروں میں کونسا راز مضمر ہے۔۔۔ اس کھلے راز سے پردہ کیوں نہیں اٹھاتا۔۔۔ 
غلط راستے پر چلی جا رہی ہے
ذرا بڑھ کر دنیا کو آواز دینا

یہ آواز کون دے۔۔۔ یہ صدا کا بار کون اپنے سر لے۔۔۔ اور کیوں لے۔۔۔ جب حلق پھاڑ کر چیخنے سے بھی اپنا گلا ہی چھل رہا ہے۔۔۔ کوئی صدا پر کان نہیں دھر رہا۔۔۔ اہل دل کے کانوں پر اب سرگوشیاں اثر نہیں کرتیں۔۔۔  "پہلا طرب شناس بڑا سنگدل تھا دوست" یہ چیخیں بھی اب چیخیں نہیں لگتی۔۔۔ کیوں کہ اب ہم آوازوں کو واسطوں کے پیمانوں سے تولنے لگے ہیں۔۔۔ ہم دکھ سے محروم ہوچکے ہیں۔۔۔ آہ۔۔۔ احمد جاوید صاحب کی ایک بات یاد آگئی۔۔۔ "احمقو! تم دکھ سے آزاد نہیں دکھ سے محروم ہو۔" ہائے۔۔۔ دانشور مر گئے۔۔۔ اور تم ان کے عقیدوں پر بحث کرتے رہے۔۔۔ بغداد کٹ گیا۔۔۔ اور تم ہاتھ باندھنے اور چھوڑنے پر لڑتے رہے۔۔۔ شام لٹ گیا۔۔۔ مصر خون سے سرخ ہوگیا۔۔۔ تمہارے لوگ دن رات آسمان سے برسنے والی آفات سے مرنے لگے۔۔۔ زمین کے پھٹنے سے گڑنے لگے۔۔۔ بھوک سے دریاؤں میں اترنے لگے۔۔۔ شہر زندگی سے ویران ہوگئے۔۔۔ نفسا نفسی نے تمہیں کچھ ایسے کھینچا۔۔۔ ایسے سینچا۔۔۔ کہ تم تعفن کے عادی ہوگئے۔۔۔ عیاشی کو دنیا بنا کر دین کو آسان کہہ کر سب باتوں پر پردہ ڈال دیا۔۔۔۔ کیا لکھوں۔۔۔ کیا لکھوں۔۔۔ کس بات کا رونا ہے۔۔۔۔ کس بات کا رونا۔۔۔ کیوں لکھوں میں یہ سب۔۔۔ آخر لکھنے کو تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔۔۔ تو میں کیوں اپنی بھڑاس نکالوں۔۔۔ آخر کیوں اپنے الفاظ کو رنج میں ڈبو کر دکھ سے کروٹ بدلتا رہوں۔۔ کیوں۔۔۔۔ 
کیا کیا لکھے جاتا ہوں۔۔۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔۔۔ 

Friday, 6 September 2013

یوم دفاع از قلمِ نیرنگ خیال

4 comments
قوموں کی داستان عروج و زوال سے مزین ہے۔ چاہے یہ قومی تشخص کی بنیاد مذہب پر ہو یا جغرافیائی حدود پر۔ پاکستان خوش قسمتی سے وہ خطہ ہے کہ جو دونوں دولتوں سے مالا مال ہے۔ خیر تذکرہ اس وقت عروج و زوال کا ہے۔ تو ہر قوم کی تاریخ میں وقت کچھ ایسی گھڑیاں ضرور لاتا ہے۔ جب ذاتی مفاد، جان و مال ملکی و اجتماعی مفادات کے آگے ہیچ ہوجاتے ہیں۔ ان آزمائش کی گھڑیوں میں جب قوم اپنے فرض سے آنکھیں چراتی ہیں۔ کڑیل جوان میدان جنگ کی بجائے گھر میں چھپنے کو ترجیح دیں۔ تو ایسی قوموں کے مقدر میں آنے والا لمحات کا سورج خوشی و مسرت نہیں بلکہ اپنوں کی لاشوں کے ساتھ ساتھ غلامی کی نہ ٹوٹنے والی زنجیر لے کر آتا ہے۔ اور پھر بسا اوقات اُس طوق کو اتارنے میں صدیاں بھی  کم پڑ جاتی ہیں۔ 

ایسی ہی ایک گھڑی 6 ستمبر 1965 کو پاکستان کی تاریخ میں بھی آئی تھی۔ لیکن سلام ہیں اس قوم کو۔۔۔ جس نے اپنے فرائض سے آنکھیں نہیں چرائیں۔ ان نوجوانوں کو جن کے لیے ملکی سلامتی ان کی اپنی جان و مال سے کہیں زیادہ تھی۔ سلام ہے۔ ان شہیدوں کو سلام ہے جنہوں نے اپنے جسموں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ کر شہادت کا رتبہ پایا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ صریح موت ہے۔ لیکن ڈر کا ان کے عمل سے شائبہ تک نہ تھا۔ ان ماؤں کو جنہوں نے ملکی سلامتی کو اپنے بیٹوں سے زیادہ جانا۔۔۔ ان بیویوں کو جنہوں نے سہاگوں کی لاشوں پر نوحہ نہ کیا۔ بلکہ فخر سے سر اٹھا کر کہا کہ میرا شوہر شہید ہے۔ 

6 ستمبر کا دن پاکستان کا یوم دفاع وہ جرأت اور بہادری کی تاریخ رقم ہوئی جو رہتی دنیا تک درخشاں رہے گی۔
میں ان تمام شہیدوں، غازیوں دلیروں اور بہادروں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اور اس دن کی تجدید کرتے ہوئے  یہ مصمم ارادہ کرتا ہوں کہ میں اپنے ملک میں لسانی و صوبائی و دیگر ہر قسم کے تعصب کو آخری حد تک ختم کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس ملک کی بقاء ہی میری بقاء ہے۔ اور میں اپنے تئیں جو بن پڑا اس ملک کی بھلائی کے لیے کروں گا۔ آمین یا رب العالمین

Thursday, 5 September 2013

صحرا فطرت

4 comments
کچھ منتشر خیالات۔۔۔
صحرا سحر سے بھرا ہے۔۔ ۔۔ گر کسی نے رات کو صحرا میں قیام کیا ہے۔ تو وہ صحرا کی دلنشیں راتوں کے گیت گاتا نظر آئے گا۔ اور گر کسی کا واسطہ محض نخلستان سے پڑا ہے۔ تو وہ آپ کو کھجور کے درختوں اور میٹھے پانی کے چشموں کے گن گاتا نظر آئے گا۔ صحرا کی دھوپ کا شکار آپ کو صحرا کی تپش، جلن اور دور دور تک سایہ نہ ہونے کی شکایت کرتا ملے گا۔۔۔ وہ سراب کے متعلق بھی آپ کو بتائے گا۔ اور پیاس کی شدت کا بیان بھی اسی کے لبوں سے جاری ہوگا۔

کچھ لوگ صحرا کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کی ذات اپنی تمام تر خوبصورتیوں اور خوبیوں کے باوجود ہر اک کے لیے مختلف ہوتی ہے۔ کچھ لوگ انہیں شبِ صحرا کی مانند سمجھ لیتے ہیں۔ جہاں ٹھنڈک، خاموشی اور خوبصورتی ہے۔ دلفریب مناظر ہیں۔ اور دل کو موہ لینے والا سکون۔ کچھ لوگ انہیں نخلستان سمجھ لیتے ہیں۔ جہاں کھجوراور پانی کی فراوانی ہے۔ چلچلاتی دھوپ میں سایہ ڈھونڈنے کو وہاں آ بیٹھتے ہیں۔ سکون اور نعمتوں کی فراوانی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔ اور کچھ لوگوں نے ان کو ہر رنگ میں یکتا دیکھا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ بظاہر نخلستان دکھائی دینے والا۔۔ رات کے صحرا کی مانند پرسکون و دلفریب حقیقت میں کس قدر جھلسا ہے۔ کیسے کیسے غم کے سورج ہیں جو آگ برسا رہے ہیں۔ کیسے بکھرے ارادوں کی شکست کا طوفان ہے۔ جو شخصیت کے ٹیلوں کو تہہ وبالا کیے جا رہا ہے۔

صحرا فطرتوں کی اک اور خوبی اوج کمال پر ہوتی ہے۔ جتنا مرضی غبار آئے۔ طوفاں اٹھے۔ ان کی سرحد پر بس ہلکے ہلکے آثار ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔ کبھی یہ اپنے گردو غبار اور طوفان سے بیرون ذات کچھ نقصان نہیں دیتے۔ سمندر فطرت لوگوں کے بالکل برعکس۔ سمندر میں جب طوفان آتا ہے۔ تو اپنی سرحد توڑ کر نکل آتا ہے۔ باہر کے ماحول کو ڈبو دیتا ہے۔ اور جب واپس جاتا ہے۔ تو اپنے ساتھ لائے غم اور خوشیوں کا باعث بننے والوں کو باہر ہی چھوڑ جاتا ہے۔ پرواہ نہیں کرتا۔۔۔ کہ انکا کیاہوگا۔۔ صحرا فطرت اپنے غم اور خوشی کا باعث چیزوں کا اپنی ذات سے باہر نہیں جانے دیتے۔ وہ اس معاملے میں بہت احتیاط پسند ہوتے ہیں۔ سمندر فطرت کی طرح بے پرواہ نہیں۔

Saturday, 27 July 2013

بےحال سے زحال تک

8 comments
بھلے وقتوں کی بات ہے۔۔۔ جب ہم محفل میں آتے تو تھے۔ پر ہماری مرزا صاحب سے ملاقات نہ تھی۔ آتے تھے چلے جاتے تھے۔۔۔ لیکن کبھی کبھی جو مرزا کے آواز سماعتوں میں رس گھولتی۔۔ تو سوچنے ۔لگتے کہ کیسا آدمی ہے۔۔۔ ہمیشہ مثبت بات ہی کرتا ہے۔ پھر سوچا باتیں مثبت ہیں۔۔۔ کہ شخصیت منفی ہوگی۔۔۔ اس کی کھوج لگانے کو جو ہم نے بھی آغاز گفتگو کیا تو شخصیت بھی مثبت پائی۔۔۔ بعد از مدت بھید یہ کھلا کہ موصوف اتنے مثبت اس لیے ہیں کہ زندگی میں "وٹامن She" کی شدید کمی ہے۔ جب یہ خبر سننے کو ملی۔۔ تو پہلا گماں تو موصوف کے مرزا ہونے پر گزرا۔۔۔ سوچا یہ کوئی چال ہے۔۔ اتنا شریف مرزا۔۔۔ نہ نہ ۔۔۔ ۔ برادری کو چاہیے کہ فوراً سے پیشتر اس کو حنوط کروا کر محفوظ کر لے۔ ایسا نہ ہو کہ حالات زمانہ کے باعث اکلوتے شریف مرزا سے بھی ہاتھ دھونے پڑ جائیں۔ لیکن اب جو گفتگو کو سلسلہ چلا تو اک اور راز کھلا۔۔ وہ یہ کہ موصوف ہمیشہ مخاطب کو صنف نازک کے القابات سے پکارتے۔۔ چاہے مخاطب کے دو کلومیٹر پاس سے بھی زنانہ پن نہ گزرا ہو۔ یعنی "مرزا" "ہٹ" قائم تھی۔

اب جو مرزا کے حلقہ احباب میں ہم شامل ہوئے تو یہ پایا کہ پطرس کے لالہ جی، اور انشاء کے استاد مرحوم کو گر شفیق الرحمن کے شیطان سے تقسیم کر لیا جائے تو حاصل جواب اپنے مرزا صاحب ہی آئیں گے۔ لالہ جی کی طرح صبح اٹھنے کی عادت اور نہ صرف خود اٹھنے کی عادت بلکہ اس وقت تک گفتگو کرتے رہنے کی عادت جب تک باقی نہ اٹھ جائیں۔ اور خود بعد میں رام رام کرنے کے بہانے دیوی کے پاس جا پہنچنا۔۔۔ اک بار ہم نے پوچھا یار مرزا۔۔ یہ رام رام دیوی جی کے پاس ہی کیوں ہوتی ہے۔۔ شنکر جی یا وشنو کے پاس کیوں نہیں۔۔ تو ہنسنے لگے۔۔۔ کہتے میاں!!! کیا بتاؤں۔۔ اسلاف کی روحیں روز آکر سوال کرتی ہیں۔۔۔ کہ تمہارے بعد میں آنے والوں کا سکور کہاں پہنچ گیا۔ اور تم ابھی تک عاشقی کے میدان میں مصباح بنے ہو۔۔۔ پہلے رام کے پاس ہی رام رام کرتا تھا۔ لیکن بعد میں اک دن خواب میں بڑے مرزا (صاحبہ والے ) خود تشریف لائے۔ اور فرمانے لگے کہ میاں۔۔۔ ۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم پتھر کی مورت کو ہی مورتی کر لو۔۔ اس دن سے دیوی جی کے پاس ہی آنا جانا ہے۔ ہم بھی دیوی جی کے کبھی درشن نہ کیے۔۔۔ بس ویسے اک بار پوچھ لیا کہ دیوی جی کو آرٹ کا نمونہ بنا رکھا ہے کہ نہیں۔ تو کہنے لگے۔۔ بھئی ہم یوسفی کی اس بات کو خوب سمجھتے ہیں۔ مجال ہے جو کوئی ململ کا کپڑا تمہیں ملے۔۔۔ ہمیں ایسی بےلباس مورتی کے دیدار کی ہرگز تمنا نہ رہی۔۔۔ ۔

استاد محترم کی طرح بے پناہ غیر مطبوعہ کلام چھاپ رکھا تھا۔۔۔ گھر والے بھی ظالم تھے۔۔۔ کبھی جو بارش کے دوران صحن میں پانی جمع ہوجاتا تو اینٹیں رکھنے کی بجائے فاصلے فاصلے پر یہی علم و ادب کا خزینہ دھر کر راستہ بنا لیا کرتے تھے۔ ایسے میں مرزا افسوس سے سر ہلاتے رہ جاتے۔ اور کہا کرتے۔۔۔ کہ میاں۔۔۔ دور لد گیا۔۔۔ علم کی وہ قدر و منزلت نہ رہی۔۔۔ ایسے موقعوں پر آنکھوں کی بجائے منہ میں کافی پانی جمع ہوجاتا تو وقتا فوقتا تھوکتے رہتے۔۔۔ بےخبر لوگ اس کو غرور سے منسوب کر دیتے تھے۔۔۔ حالانکہ رقیق القلبی کا یہ عالم تھا کہ کبھی جو کسی پر ہونے والے ظلم کی داستاں سن لیتے یا دیکھ لیتے۔۔ تو کئی کئی روز تک دل بہلانے کو کھانے پینے اور گھومنے پھرنے پر توجہ مرکوز کیے رکھتے تھے۔۔ اک بار اک کتے کو دیکھا جو بیچارہ درد سے کراہ رہا تھا۔۔۔ تو فوراً ریوالور نکال کر گولی مار دی۔۔ کہتے میرے سے اس کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی تھی۔۔ ۔اس کے بعد اکثر لوگ اپنے درد کا تذکرہ ان کے سامنے کرنے سے گریز کرنے لگے۔۔۔ اگر کبھی کوئی موضوع زیر بحث بھی ہوتا تو مرزا کی آمد پر بات بدل دیتے۔ پتا نہیں ایسا کیوں تھا۔

یار باش آدمی تھے۔۔ اجتماعیت کے بہت زیادہ قائل تھے۔ دوران گفتگو بھی زور اجتماعیت پر ہی رہتا۔۔۔ وہ لوگ جو یہ لفظ پہلی بار سنتے۔ لازما چونک جایا کرتے تھے۔۔ ایسے میں مرزا دھیمی سے مسکراہٹ سے کہا کرتے۔۔ کچھ نہیں میاں!!! بس اخبارات نے تمہارا دماغ خراب کر رکھا ہے۔ انٹرویو کرنے کے بہت شوقین تھے۔ جس پر نظر کرم کرنا مقصود ہوتا۔ اس کو چائے کی دعوت دیتے۔ دعوت دینے کا انداز بھی بڑا منفرد تھا۔ کبھی یہ نہ پوچھتے کہ کس وقت فارغ ہوتے ہو۔ کبھی ہمارے آستانے پر تشریف لاؤ۔ چائے مشہور ہے ہماری۔۔۔ بس حکم صادر کرتے میاں۔۔۔ چائے پر آجاؤ۔۔ مجال ہے جو کوئی سرتابی کرے۔۔ میں نے پوچھا کہ مرزا کبھی کسی نے سرتابی کی کوشش کی۔ تواک ادائے کافری سے ہنس کر فرمانے لگے۔ میاں تم کر کے دیکھ لو۔۔۔ چائے پلانے سے پہلے کچھ سوال داغتے۔۔۔ اور پھر چائے پلانے کے بعد کڑک سوالات داغتے۔۔۔ اور جو جواب نہ دیتا۔ تو اس کو "سوا" "لات" رسید کرتے۔ چارو ناچار اس کو حکم کے آگے سر جھکانا ہی پڑتا۔ اور وہ بیچارہ جوابات دے دے کر فوت ہونے والا ہوجاتا۔ ایسے میں جب کبھی ان کے پاس سوالات ختم ہوجاتے تو ان کی اک اور شاگرد سوالات کی پٹاری لے کر آجاتی۔۔۔ اچھا ان کا اور اس شاگرد کا تعلق بھی مزے کا تھا۔ وہ آنے کے بعد ان کے سوالات کی تعریف کرنا نہیں بھولتیں تھیں۔ اور یہ بھی ہمیشہ ہی فرماتے۔۔۔ بس ہم تو یونہی ہیں۔۔ اصل سوالات تو آپ ہی پوچھتیں ہیں۔۔۔ آدھا گھنٹہ یہ دونوں یونہی اک دوسرے کو اونچا ثابت کرتے رہتے۔۔ ایسے میں مسئول ان کی باتوں سے اکتا کر یہ جا وہ جا۔۔۔ بعد میں اس کو کہتے میاں بڑے نابکار ہو تم۔۔۔ ایسی بھی کیا طبیعت میں تیزی پائی تم نے۔۔۔ چلو ابھی چائے پلائی ہے۔۔۔ جب تک سب جواب نہیں ملتے۔۔ جانے کیسے دے سکتے ہیں تمہیں۔۔۔ 

سالگرہ ہمیشہ یاد رکھتے۔۔۔ خاص طور پر اپنی اور ان لوگوں کی جن کی سالگرہ اس دن ہوتی تھی۔۔ جس دن مرزا کی سالگرہ ہوتی تھی۔۔۔ تحفے تحائف دینے کے بھی بہت شوقین تھے۔ کہتے تھے اس سے باہمی اخوت اور محبت بڑھتی ہے۔۔ ہم نے کہا کہ اخوت تو آج کے دور میں محبت کی قینچی ہے۔۔۔ تو ہنس کر رازدرانہ انداز میں کہنے لگے۔۔ میاں اخوت اور محبت کی تخصیص بھی صنفی تفاوت پر ہے۔۔ سمجھا کرو۔۔۔ اس کے علاوہ لوگوں کی کیفیات میں بے حد دلچسپی رکھتے تھے۔۔ ان کی کیفیات کا خوب مذاق اڑاتے اور مذاق اڑانے والوں کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کرتے۔۔۔ خود تو محض کبھی کبھار شہد دیوار پر لگانے کا کام کرتے۔۔ اور پھر خود اک طرف بیٹھ کر لطف اندو ز ہوا کرتے۔۔۔ سیاست کے موضوع کو اپنا پسندیدہ قرار دیتے۔ اور اس پر بات کرنا وقت کا ضیاع سمجھتے۔۔۔ اس میں جانے کیا رمز پوشیدہ تھی۔

دوستوں سے دست درازی کرتے پائےجاتے۔ بچوں سے شفقت، بڑوں سے ادب اور صنف نازک سے ہمیشہ محبت سے پیش آتے۔ راقم بھی ٹھہرا بخت برگشتہ جو پوچھ بیٹھا کہ مرزا یہ صنف نازک سے محبت سے پیش آنا۔۔۔ تو ہنس کر فرمانے لگے۔۔۔ میاں جس معاشرے میں میں رہتا ہوں۔۔۔ صنف کرخت سے محبت سے پیش آؤں تو تم کو کیا معلوم کیسی کیسی باتیں سننے کو ملیں۔۔۔ یہاں تک کہ وطن واپسی پر بھی یہی رویہ رہتا۔۔ اس ضمن میں فرماتے کہ بھئی چند دن کے لیے اب اپنی عادتیں کون خراب کرے۔۔۔ ویسے میری "شر" "افت" پر تمہیں شبہ کیوں ہے۔ ہم نے فوراً دست بستہ عرض کی۔ جناب ہمیں تو اس پر صدیوں سے یقین ہے۔ یہ سننا تھا کہ بھڑک اٹھے۔ اور کہنے لگے۔۔ خبردار جو بڑے مرزا کو بیچ میں لائے۔۔ یہ کردار کشی سے جو تاریخ مسخ کی گئی ہے۔ بقیہ عشاق کی من گھڑت کہانیاں ہیں۔ہم سے ناراض ہوگئے۔ اور کافی دن تک خیر خبر نہ لی۔ پھر ہم بھی رمز شناس تھے۔ اک صوفیانہ کلام کی آڑ لے کر انتظام سبو کیا تو دونوں یعنی مرزا اور ان کی مسکراہٹ واپس لوٹ آئی۔ ٹناری جب بڑھ جاتی تو پنجابی ہی بولا کرتے تھے۔

اک دن جوش میں فرمانے لگے کہ میاں تم بھی تو اپنے تئیں ادیب کہلاتے ہو۔۔ ہم نے فوراً یہ الزام اپنے سر لینے سے انکار کر دیا۔ تو ہنسنے لگے۔۔ کہتے میاں!!! ہماری بات غور سے سنو۔۔ یہ جتنے بھی بڑے ادیب تھے۔۔۔ یہ اس لیے بڑے ادیب بنے کہ ان کے پاس اک ایسا شخص تھا جس پر یہ لکھ سکتے تھے۔۔ اور وہ تھا مرزا۔۔۔ تم بھی خوش نصیب ہو۔۔۔ مرزا کا ساتھ تمہیں نصیب ہے۔۔ لکھو ہم پر۔۔۔ اور بن جاؤ بڑے ادیب۔۔۔ بھئی ہم تو لوگوں کو ادیب ہی بناتے آئے ہیں۔۔۔ اسلاف کی اس رسم سے بھی روگردانی مناسب نہیں۔۔ اس پر ہم نے کہا کہ ہمارے اسلاف میں تو کوئی ادیب نہ گزرا تھا۔۔ تو ہم کونسی وراثت پر حق جتانے کے لیے لکھیں۔۔۔ تو طنزا بولے۔۔۔ آنے والوں کو بھی یہ بات کرنے کا ہی موقع دینا چاہتے ہو۔۔۔ 

اب جو ہم نے لکھنا شروع کیا کہ ہم نے جو ادب کا مطالعہ شروع کیا تو "مرزا" کو بہت عام پایا۔ فکاہیہ تحاریر ہوں کہ شاعری یا تنقیدی مضامین۔۔ یا عشقیہ داستان۔۔ مرزا مرزا اور مرزا ہر جگہ ہو رہی ہوتی تھی۔۔۔ ہم نے سوچا کہ اگر کچھ بننا ہے تو مرزا سے دوستی کرنی پڑے گی۔ مرزا کی تلاش میں خاک چھانتے رہے۔۔۔ لیکن مرزا نہ ملا۔۔۔ آخر اک دن یونہی اتفاق سے مرزا سے ملاقات ہوگئی۔ اور پھر ملاقات کیا۔۔۔ یہ تو سلسلہ ہوگیا۔ جب تک مرزا سے چھیڑ چھاڑ نہ ہو۔۔۔ کوئی جملہ بازی کا تبادلہ نہ ہو۔۔ یوں محسوس ہوتا کہ آج کچھ کمی رہ گئی ہے۔۔۔ 

مرزا بہت عمدہ عادات و خصائل کے مالک ہیں۔ شاعری پر بے انتہا عبور ہے۔ وجہ غالب کا مرزا ہونا ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے کے عادی ہیں۔ اک رہنما کی طرح لوگوں کا اکھٹاکرنے اور اکھٹا رکھنے کے فن پر دسترس رکھتے ہیں۔ تو یہی پر ٹوک دیا۔ ۔۔۔ کہنے لگے۔۔ کیا بیکار انداز تحریر ہے تعریف کرنے کا۔۔۔ بھئی کچھ پرانے ادیبوں کو پڑھو۔۔ انہوں نے مرزا کی کس طرح تعریف کی ہے۔ پھر کچھ طبع آزمائی کرو۔۔۔ پہلے تیرنا سیکھو۔۔۔ پھر پانی میں اترنا۔۔۔ ہم نے اس نصیحت کو نیفے میں اڑس لیا۔۔ اب اتنی سی بات کے لیے پلو کہا ں سے لاتے۔ کہ اس سے تو مرزا خود بھی محروم تھے۔۔

فکر تجربی

0 comments

فکر تجربی
پیش ہے اک جہاں دیدہ مچھیرے کی داستاں

پرانے وقتوں کی بات ہے۔۔۔ کتنے پرانے ۔۔۔ جب مچھیرا کی رمز نئی نئی ایجاد ہوئی تھی۔ تو کئی لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کر مچھیرا کہلانے کو مچھلیوں کا شکار کیا کرتے تھے۔ مگر مؤرخ بڑا مورکھ تھا۔ اس نے بھی ایسے لوگوں کو مچھیرے کے خطاب سے نہ نوازا۔ بلکہ جو صرف مچھلیاں پکڑ کر اپنی گزر اوقات کا بندوبست کرتا۔ اس کو مچھیرے کے خطاب سے نوازا۔
تو ایسے ہی وقتوں میں اک مچھیرا تھا۔ جو کہ مچھلیاں پکڑتا تھا۔ اب کوئی پوچھے کہ ہرن کیوں نہیں مارتا تھا۔ پرندے کیوں نہیں پکڑ لیتا تھا۔ اس میں جان جانے کا بھی خدشہ نہیں۔ ڈوب جانے کا بھی کوئی خطرہ نہیں۔
تو بئی بات یہ ہے کہ وہ اک مچھیرا تھا۔ جس کا کام مچھلیاں پکڑنا تھا۔ لیکن تھا کوئی اصلاً برصغیر کا مچھیرا۔۔۔ وہ ایسے کہ جب تک پہلی شکار کی ہوئی مچھلی نہ ختم ہوتی۔ دوسری کے لیے نہ نکلتا۔ فطری سستی اور طبیعت کا دھیما پن اس کے برصغیر سے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن مؤرخ نے جب دیکھا کہ اس میں اک علاقے کے نام پر ضرب لگنے کا اندیشہ ہے۔ تو اس کو تؤکل کا نام دے دیا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی۔ کہ توکل سے اس کا کچھ لینا دینا نہ تھا۔ وہ مچھیرا تھا۔ عالم وقت نہ تھا۔ خیر چھوڑیں ان باتوں کو۔۔۔ اصل کہانی کی طرف آتے ہیں۔
اچھا اس مچھیرے میں جہاں بہت سی خوبیاں تھیں۔ وہاں اک خوبی یہ بھی تھی۔ کہ یہ صرف ایک ہی مچھلی پکڑ کر لاتا تھا۔ کبھی دو نہ پکڑتا۔ ظاہر ہے فریج کا دور نہ تھا۔ کہ مچھلی ذخیرہ کر لی جائے۔ اور مٹکے میں مچھلی چھوڑ کر ضرورت پڑنے پر استعمال میں لانے کا خیال اس کے ذہن میں کبھی آیا نہ تھا۔ کیونکہ بات پھر وہی ہے، کہ مچھیرا تھا۔ سائنسدان نہ تھا۔ کبھی جو ایک سے زیادہ مچھلیاں جال میں پھنس جاتیں۔ تو ایک رکھ کر باقیوں کو چھوڑ دیتا۔ اور ان سے اپنے رویے کی معافی بھی مانگتا۔ بعض روایات میں ہے کہ ساری چھوڑ دیتا۔ اور صرف ایک مچھلی کے پھنسنے پر جال سمیٹتا۔ اگر زیادہ پھنس جاتی تو ایسی جگہ جا کر جال لگاتا۔ جہاں کسی بھولی بھٹکی مچھلی کے آنے ہی کا امکاں ہوتا۔ مچھلی لا کر اپنی بیوی کے حوالے کرتا۔ ماں باپ بہن بھائیوں کا ذکر اس حکایت میں اضافی ہے۔ اور غالب گمان ہے کہ بچوں کے بغیر بھی حکایت چل سکتی ہے۔
تو ایسی ہی اک شام میں جب وہ اپنی شکاری طبیعت کی بےچینی دور کر کے اک عدد مچھلی کا شکار کرنے کے بعد گھر لوٹا۔ تو حسب عادت یا حسب روایت یا حسب حکایت مچھلی اپنی بیوی کے ہاتھ پر رکھی۔ اور کمر سیدھی کرنے کو دراز ہوگیا۔ بیوی جب مچھلی کاٹ رہی تھی تو اس نے مچھلی کے پیٹ میں اک چمکتا دمکتا موتی دیکھا۔ یہ موتی دیکھتے ہی بیوی کی باچھیں کھل گئیں۔ بچپن میں سنی تمام کہانیاں پردہ ذہن پر رقصاں ہوگئیں۔ جن میں یونہی کسی غریب آدمی کے ہاتھ خزانہ لگتا تھا۔ اور وہ بادشاہ بن بیٹھتا تھا۔ خزانے کے ساتھ ہی اسے سپہ سالاری اور حکومت کرنے کے گر پتا نہیں کہاں سے ہاتھ لگ جاتے تھے۔ لیکن بات پھر وہی کہ جناب ہم کو ان باتوں سے کیا لینا دینا۔۔۔ ۔
موتی دیکھ کر مچھیرے کی بیوی اپنی خوشی پر قابو نہ رکھ سکی۔ اور چلائی۔ اؤے مچھیرے۔۔۔ پھر اسے خیال آیا کہ اگر وہ امیر ہوگئی تو یہ زبان اشرافیہ میں معیوب و معتوب ٹھہرے گی۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے اپنی پکار میں تبدیلی پیدا کی۔ اور چلائی۔
سرتاج ، سرتاج
دیکھیے تو ذرا، ادھر آئیے۔۔۔ آج مچھلی کے شکم سے کیا برآمد ہوا ہے۔ بتاؤ تو سہی۔ ذرا بوجھو تو سہی۔۔۔ اک چمکتا دمکتا موتی۔۔۔ آج کے دور کی کوئی فلمی قسم کی بیوی ہوتی تو گانا گانے دریا پر نکل جاتی۔ لیکن یہ اک پرانی کہانی ہے۔ شاید گانا بھی ابھی ایجاد نہ ہوا تھا۔
موتی دیکھ کر مچھیرا بھی خوشی سے اچھلنے لگا۔ اور کہنے لگا۔ میری پیاری مچھیرنی۔۔۔ اوہ معذرت میری پیاری بیوی۔۔۔ میرے برے ہی برے وقتوں کی ساتھی۔۔۔ لگتا ہے کہ آج قسمت سے وہ دن آگیا ہے۔ جس کے لیے میں نے یہ پیشہ اپنایا تھا۔ میں جاتا ہوں۔ اور موتی کو بیچ کر کچھ اور کھانے پینے کا سامان لاتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے دن پھرنے کا وقت آگیا ہے۔
مچھیرے کی بیوی نے کہا۔ کہ پرانی کہانیوں میں اس طرح کی باتوں کو چھپایا جاتا تھا۔ سو آپ بھی خاموشی سے پہلے اس کی قیمت کا اندازہ لگوا آؤ۔ یہ نہ ہو دن پھرنے سے پہلے ڈاکو پھر جائیں یہاں سے۔۔۔ 
مچھیرے نے موتی کو سنبھال کر تھاما۔ اور گاؤں کے سنار کے پاس جاپہنچا۔۔ سنار نے موتی کو اچھی طرح پرکھا۔ پہلے تو اس کے دل میں بےایمانی آئی کہ اس کو تھوڑی سی قیمت دے کر یہ چیز اپنے قبضے میں کر لوں۔ مگر پھر ساتھ ہی خیال آیا کہ اب اپنی ساری عمر گزار چکاہوں۔ یہ جو چند روپے بےایمانی سے کما لوں گا تو بلا وجہ اپنی قبر کو کیڑوں سے بھروں گا۔ اس نے مچھیرے سے کہا کہ بھائی بات یہ ہے کہ اپنی اتنی پسلی نہیں کہ یہ موتی خرید سکیں۔ تم ایسا کرو۔۔ کہ اس کو شہر کے کسی سنار کے پاس لے جاؤ۔ شاید وہ اس کی قیمت ادا کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ یہ چیز بہت نایاب اور قیمتی ہے۔ دھیان سے جانا۔ اور دیکھو ٹھگے نہیں جانا۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔
مچھیرا اب موتی کو لے کر شہر میں سب سے امیر و کبیر سنار کے پاس جا پہنچا۔ اور اس کو موتی دکھایا۔ لیکن قصہ نہ بتایا۔ سنار نے موتی دیکھا۔ اور پھر مچھیرے کو۔ تو اس کے دل میں بےایمانی آگئی۔ اس نے کہا کہ میں اس سے اونے پونے دام خرید لیتا ہوں۔ اور بادشاہ سے منہ مانگا انعام پاؤں گا۔ اس نے مچھیرے کو کہا کہ ایسی تو کوئی خاص بات نہیں۔ خیر میں تمہیں اس کی اتنی قیمت ادا کردیتا ہوں۔ اب مچھیرا جو عرصہ سے مچھلیاں پکڑ پکڑ کر مچھلی شناس ہو چکا تھا۔ سمجھ گیا۔ کہ سنار اس کو بھی مچھلی سمجھ رہا ہے۔ کہنے لگا۔ نہیں میں یہ موتی نہیں بیچوں گا۔ اور وہاں سے نکل کر سیدھا بادشاہ کے محل جا پہنچا۔
بادشاہ کے محل میں پہنچ کر مچھیرے نے بوجہ واقفیتِ مؤرخانہ، سب سے پہلے جان کی امان چاہی۔ جب اس بات پر یقین آگیا کہ بادشاہ نہیں مارے گا۔ تو سارا قصہ کہہ سنایا۔ اور موتی بھی بادشاہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔
پرانے زمانے میں بادشاہ بھلے کوئی بھی بن جائے۔ لیکن جیسے ہی وہ بادشاہ بنتا، اس کو نجوم، سپہ گری ، قیافہ شناسی اور یہاں تک کہ جوہری ہونے پر بھی مکمل دسترس خود بخود حاصل ہوجاتی۔ سو یہی معاملہ اس بادشاہ کے ساتھ تھا۔ موتی دیکھ کر ہی بھانپ گیا کہ کوئی عدیم المثال قسم کی چیز ہے۔ اور دوبارہ ہاتھ نہیں آنے والی۔ فورا کہنے لگا۔ کہ میاں مچھیرے! اس موتی کی قیمت تو بہت زیادہ پاتے ہیں۔ کہ یہ اک بہت ہی نایاب چیز ہے۔ لیکن قصہ کچھ یوں ہے کہ تم خزانے میں چلے جاؤ۔ اور اک وقت مقرر کر دیا کہ اس دوران جو بھی اٹھانا چاہو۔ اٹھا سکتے ہو۔
مچھیرے نے فورا اک چھکڑا خریدا۔ اور اس کو لے کر شاہی خزانے میں داخل ہوگیا۔ جو چیز ہاتھ آئی۔ اٹھا اٹھا کر چھکڑے پر لادتا گیا۔ پرانی روایتوں میں آتا ہے کہ وہ کھانے پینے میں مشغول ہوگیا۔ لیکن یاد رہے کہ بادشاہ نے اس کو خزانے کا راستہ دکھایا تھا نہ کہ باورچی خانے یا پھر آرام گاہ کا۔ وقت مقررہ تک مچھیرا کافی لوٹ مار کر چکا تھا۔

وہاں سے نکل کر وہ اپنے علاقے میں واپس آگیا۔ جب ذرا غم روزگار سے فرصت ملی۔ تو دین کی طرف بھی راغب ہوا۔ بہت سے نیک کام کروائے۔ کہتے ہیں کہ اس کا لنگر ہر وقت چلتا تھا۔ جبکہ بعض متعصب مؤرخوں کے مطابق اس نے جال کرایے پر دینے کا کام بھی شروع کر دیا۔ اور بہت سے ملازم مچھیرے رکھ لیے۔ یوں وہ مچھلی منڈی کا سب سے بڑا تاجر بن گیا۔۔۔ واللہ اعلم

حکایت اور کہانی اب یہاں ختم ہوگئی ہے۔ اور اس سے آگے کوئی سبق نہیں۔ جو کچھ تھا اس میں ہی تھا۔ اب بھی اگر اخد نہیں کیا تو بس پھر الگ سے لکھنا بھی بیکار ہی ہے۔۔۔

کمال ارتشا

0 comments


کمال ارتشا
معمولات عوام سے نابلد بادشاہوں کا وہی پرانا قصہ
پرانا دور بھی کمال دور تھا۔۔۔ ۔ سیانے ہر اچھی بری عادت بادشاہ پر ڈال کر اپنی راہ لگتے تھے۔ جیسی عوام ویسا حکمران کا مقولہ بھی ایجاد نہ ہوا تھا۔ اور بادشاہ بھی ہنسی خوشی ہر اچھی اور بری عادت کو اپنا فخر سمجھتے تھے۔ پھر ہر دور کے بادشاہ مختلف ہوا کرتے تھے۔ کبھی ظالم بادشاہوں کا دور آتا تو روئے زمین پر یا کم از کم حکایات میں ہر طرف ظالم سے ظالم بادشاہ دیکھنے کو ملتا۔ ایسے ایسے ظلم کرتے کہ آج کے دور کے لوگ سنیں تواکثر افراد کی بےاختیار ہنسی نکل جائے۔ اور کبھی اچھے بادشاہوں کا دور آتا تو ہر حکایت میں اک سے بڑھ کر اک بادشاہ آرہا ہوتا تھا۔ کوئی عجز کا پیکر تو کوئی صفیں بنتا پھرتا۔۔۔ کوئی پوچھے معاملات سلطنت کس وقت نبٹاتا تھا۔ جب آدھا دن عبادت اور آدھا صفیں بنتے گزار دیتا تھا۔ ایسے بادشاہوں کے وزیر بھی پھر باکمال ہوتے تھے۔ وہ فارغ وقت میں صفوں کو بیچ آیا کرتے تھے۔ لیکن بعض لوگ جو ہر چیز کو محض تعصب کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے کہ اس دور میں کسی اور کو صفیں بنانے اور فروخت کرنے کی اجازت نہ ہوا کرتی تھی۔ سب کو مجبورا بادشاہ سے ہی منہ مانگے دام دے کر خریدنی پڑتی تھی۔ واللہ اعلم
اس طرح بادشاہوں کی اک قسم ایسی بھی ملتی ہے۔ جو اقتدار کے خواہش مند ہوتے تھے۔ اس مقصد کے لیے وہ چھوٹی چھوٹی قربانیاں جیسے کہ بھائیوں کو مروا دینا یا باپ کو قتل کرا کر مسند پر جلوہ افروز ہونا جیسے کام معیوب نہ سمجھتے تھے۔ لیکن اک بار جو بادشاہ بن گئے تو بس پھر اتنے نیک ہوجایا کرتے تھے اتنے نیک ہوجایا کرتے تھے۔۔ کہ محل کے باہر زنجیر لگوا دیا کرتے تھے۔ لیکن پھر وہی مورخ کا متعصبانہ رویہ کہ جی بجانے والے کو بھی خوب بجایا کرتے تھے۔ خیر ہم ایسے تعصب بھرے بیانات پر توجہ نہ دیں گے۔
تو آج کی ہماری حکایت کا مرکزی کردار ان بادشاہوں جیسا نہیں تھا۔ جو لالچی ہوں۔ یا پھر ظالم یا پھر نیک۔ وہ تو اک اعتدال پسند بادشاہ تھا۔ لیکن مشیروں وزیروں نے بادشاہ کے کان بھرے کہ آپ روایت کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ بادشاہ یا تو نیک ہوگا یا ظالم یا پھر لالچی۔ آپ اس طرح کا معتدل سا رویہ رکھ کر تاریخ کو مسخ مت کیجیے۔ کوئی ایسا کام کیجیے کہ تاریخ کی کتاب میں آپ کے لیے اک نیا باب نہ لکھنا پڑے۔ اور پرانے تذکروں کے ساتھ ہی کہیں آپ کے دور کا بھی تذکرہ آجائے۔ جب بادشاہ نے اس بات پر کہا کہ اچھا ہے تاریخ میں اک نیا باب کا اضافہ ہونا۔ تو وزیروں نے یہ کہا کہ لوگ یا تو ظالم بادشاہوں کے قصے پڑھیں گے یا نیک کے۔ کوئی آپ کا تذکرہ نہ پڑھے گا۔ یہ بات بادشاہ کے دل کو لگی۔ لیکن ایسی کیا تمنا کرتا کہ تاریخ میں اک منفرد مقام بھی پاتا۔۔۔ ۔

بادشاہ اب ضعیف ہو رہا تھا۔ ڈھلتی عمر کے ساتھ ہی قوی بھی جواب دیتے جاتے تھے۔ ادھر ماضی اک یاد بن کر گمان کی چوکھٹ سے لپٹا رہتا تھا۔ کہ جس طرح اپنے باپ کو مروا کر تخت حاصل کیا تھا۔ اب پھر سے تاریخ دہرانے کا وقت آیا ہی چاہتا ہے۔ کہ اسے خیال آیا۔۔ اگر وہ امر ہوجائے۔ (یہ امر پریم والا امر نہیں۔ بلکہ ہمیشہ حیات رہنے والا امر ہے۔) تو پھر کون مار کر بادشاہت حاصل کر سکے گا۔ بس یہ خیال آنا تھا کہ شاہی طبیبوں کو عمر خضر کا حاصل کرنے کے طریقوں پر لگا دیا۔ دل میں کہیں خواہش عمر ابلیس حاصل کرنے کی تھی۔ پر زبان پر عبور حاصل ہونے کی وجہ سے اس معاملے کو بھی نیکی کا رنگ دینے کی کوشش کی۔ ادھر اک دو شاہی طبیب جن کا خود اک پاؤں قبر اور دوسرا کیلے کے چھلکے پر تھا۔ اس بیٹھی بٹھائی مصیبت سے پریشان ہوگئے۔
آخر اپنی زندگی بچانے کو ان بوڑھے شاہی طبیبوں نے فیصلہ یہ کیا کہ ہندوستان کی کسی نام نہاد جڑی بوٹی کا ذکر کرتے ہیں۔ یوں بھی حکمت اہل ہند کی لونڈی ہوا کرتی تھی۔ اور زیادہ تر محدود بھی اسی حد تک ہی تھی۔ لیکن حکماء کا خیال تھا کہ جب تک وہ بوٹی آئے گی۔ وقت گزر جائے گا۔ اور جو حال ہے۔ ہم بھی ساتھ ہی گزر جائیں گے۔ اور نیا طبیب کوئی نیا بہانہ تراش ہی لے گا۔ وگرنہ سزا پائے جس کا وہ حق دار ہوگا۔
لہذا بادشاہ کے سامنے باادب ہو کر جان کی امان پا لینے اور اس کی اچھی طرح تصدیق کر لینے کے بعد عرض کی۔ کہ یہ کام کچھ مشکل نہیں۔ ہندوستان کے ملک میں اک جڑی بوٹی پائی جاتی ہے۔ گر وہ مل جائے تو عمر خضر کی دوا تیار ہوجائے۔
بادشاہ نے اک وفد تیار کیا۔ اور اس میں ناپسندیدہ مشیران کے ساتھ ساتھ اک حکیم کو بھی شامل کر دیا کہ بوٹی کی پہچان کر کے لائے۔
ادھر راجہ بھی کچھ کم بھرم باز نہ تھا۔ جب بادشاہ کا وفد وہاں پہنچا تو اچھے طریقے سے شاہی آداب بجا لینے کے بعد خط پیش کیا۔ خط کا پڑھنا تھا کہ راجہ کا قہقہہ نکل گیا۔ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگیا۔ اور کہنے لگا کہ اس احمق بادشاہ کو کس نے کہا ہے کہ دنیا میں انسان اپنی مرضی سے عمر حاصل کر سکتا ہے۔ اب اس نے پورے وفد کو پہاڑی غار میں قید کر دیا۔ اور کہا کہ جب تک لینڈ سلائیڈنگ نہ ہوگی۔ کسی نے باہر نکلنے کی کوشش کی تو اس کی گردن مار دی جائے گی۔یہ سنکر وفد کا خون خشک ہوگیا۔ اور فشار خون کی رفتار گرنے سے رنگ پیلا پڑ گیا۔ اکثریت نے زندگی میں کبھی نماز نہ پڑھی تھی۔ کجا یہ کہ کوئی نیک کام کیا ہوتا۔ اک جو ایسے کاموں میں پرانا کھلاڑی تھا۔ اس نے کہا کہ آؤ میں حفاظتی دستے سے کوئی مک مکا طے کرتا ہوں۔ اس نے ان کو اک معقول رشوت کے عوض منا لیا۔ اور پہاڑی پر چڑھ کر سب کی مدد سے کوئی چار پانچ چھوٹے بڑے پتھر پھینک دیے۔ تاکہ لینڈ سلائیڈنگ کا واقعہ سچ لگے۔
دو دن وہاں انہوں نے خوب موج مستی کی۔ دن کو شکار کرتے ۔ رات کو آگ کا الاؤ جلا کر اک دوسرے کو اپنے اپنے بادشاہ کی حماقتوں کے قصے سناتے۔ اس کے بعد حفاظتی دستہ ان کو لے کر بادشاہ کی خدمت میں پیش ہوا اور سارا واقعہ عبرت آموز انداز میں سنایا۔ پورا دربار ان کی دعاؤں کی تاثیر کے ایمان افروز واقعات سنکر اشک بار ہوگیا۔ عقیدت کا یہ عالم دیکھ کر وفد میں سے کئی ایک نے سوچا کہ ہندوستان کی فضا پیری مریدی کے لیے بڑی سازگار ہے۔ لیکن اس وقت اپنے آپ کو باز رکھا۔
اس راجہ نے اب اس وفد کو کہا کہ اپنے بادشاہ کے پاس جاؤ۔ اور اس کو یہ ایمان افروز واقعہ سنانے کے بعد کہو میرا یہ پیغام دے دو کہ جسمانی حیات کی بجائے نیکی یا برائی کے کام کر کے ابدی نام کمایا جائے۔

اخلاقی سبق: ایسی کہانیوں کا کوئی اخلاقی سبق نہیں ہوتا۔۔۔ عوامی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہونے اور اپنی حماقتوں کو عقلمندی سمجھنے کی وجہ سے ہر کسی سے بیوقوف بننے والوں بادشاہ کی دوسرے اپنے جیسے ہی بادشاہ پر رعب ڈالنے کی کوشش ہے۔