Saturday 27 July 2013

کمال ارتشا

0 comments


کمال ارتشا
معمولات عوام سے نابلد بادشاہوں کا وہی پرانا قصہ
پرانا دور بھی کمال دور تھا۔۔۔ ۔ سیانے ہر اچھی بری عادت بادشاہ پر ڈال کر اپنی راہ لگتے تھے۔ جیسی عوام ویسا حکمران کا مقولہ بھی ایجاد نہ ہوا تھا۔ اور بادشاہ بھی ہنسی خوشی ہر اچھی اور بری عادت کو اپنا فخر سمجھتے تھے۔ پھر ہر دور کے بادشاہ مختلف ہوا کرتے تھے۔ کبھی ظالم بادشاہوں کا دور آتا تو روئے زمین پر یا کم از کم حکایات میں ہر طرف ظالم سے ظالم بادشاہ دیکھنے کو ملتا۔ ایسے ایسے ظلم کرتے کہ آج کے دور کے لوگ سنیں تواکثر افراد کی بےاختیار ہنسی نکل جائے۔ اور کبھی اچھے بادشاہوں کا دور آتا تو ہر حکایت میں اک سے بڑھ کر اک بادشاہ آرہا ہوتا تھا۔ کوئی عجز کا پیکر تو کوئی صفیں بنتا پھرتا۔۔۔ کوئی پوچھے معاملات سلطنت کس وقت نبٹاتا تھا۔ جب آدھا دن عبادت اور آدھا صفیں بنتے گزار دیتا تھا۔ ایسے بادشاہوں کے وزیر بھی پھر باکمال ہوتے تھے۔ وہ فارغ وقت میں صفوں کو بیچ آیا کرتے تھے۔ لیکن بعض لوگ جو ہر چیز کو محض تعصب کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے کہ اس دور میں کسی اور کو صفیں بنانے اور فروخت کرنے کی اجازت نہ ہوا کرتی تھی۔ سب کو مجبورا بادشاہ سے ہی منہ مانگے دام دے کر خریدنی پڑتی تھی۔ واللہ اعلم
اس طرح بادشاہوں کی اک قسم ایسی بھی ملتی ہے۔ جو اقتدار کے خواہش مند ہوتے تھے۔ اس مقصد کے لیے وہ چھوٹی چھوٹی قربانیاں جیسے کہ بھائیوں کو مروا دینا یا باپ کو قتل کرا کر مسند پر جلوہ افروز ہونا جیسے کام معیوب نہ سمجھتے تھے۔ لیکن اک بار جو بادشاہ بن گئے تو بس پھر اتنے نیک ہوجایا کرتے تھے اتنے نیک ہوجایا کرتے تھے۔۔ کہ محل کے باہر زنجیر لگوا دیا کرتے تھے۔ لیکن پھر وہی مورخ کا متعصبانہ رویہ کہ جی بجانے والے کو بھی خوب بجایا کرتے تھے۔ خیر ہم ایسے تعصب بھرے بیانات پر توجہ نہ دیں گے۔
تو آج کی ہماری حکایت کا مرکزی کردار ان بادشاہوں جیسا نہیں تھا۔ جو لالچی ہوں۔ یا پھر ظالم یا پھر نیک۔ وہ تو اک اعتدال پسند بادشاہ تھا۔ لیکن مشیروں وزیروں نے بادشاہ کے کان بھرے کہ آپ روایت کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ بادشاہ یا تو نیک ہوگا یا ظالم یا پھر لالچی۔ آپ اس طرح کا معتدل سا رویہ رکھ کر تاریخ کو مسخ مت کیجیے۔ کوئی ایسا کام کیجیے کہ تاریخ کی کتاب میں آپ کے لیے اک نیا باب نہ لکھنا پڑے۔ اور پرانے تذکروں کے ساتھ ہی کہیں آپ کے دور کا بھی تذکرہ آجائے۔ جب بادشاہ نے اس بات پر کہا کہ اچھا ہے تاریخ میں اک نیا باب کا اضافہ ہونا۔ تو وزیروں نے یہ کہا کہ لوگ یا تو ظالم بادشاہوں کے قصے پڑھیں گے یا نیک کے۔ کوئی آپ کا تذکرہ نہ پڑھے گا۔ یہ بات بادشاہ کے دل کو لگی۔ لیکن ایسی کیا تمنا کرتا کہ تاریخ میں اک منفرد مقام بھی پاتا۔۔۔ ۔

بادشاہ اب ضعیف ہو رہا تھا۔ ڈھلتی عمر کے ساتھ ہی قوی بھی جواب دیتے جاتے تھے۔ ادھر ماضی اک یاد بن کر گمان کی چوکھٹ سے لپٹا رہتا تھا۔ کہ جس طرح اپنے باپ کو مروا کر تخت حاصل کیا تھا۔ اب پھر سے تاریخ دہرانے کا وقت آیا ہی چاہتا ہے۔ کہ اسے خیال آیا۔۔ اگر وہ امر ہوجائے۔ (یہ امر پریم والا امر نہیں۔ بلکہ ہمیشہ حیات رہنے والا امر ہے۔) تو پھر کون مار کر بادشاہت حاصل کر سکے گا۔ بس یہ خیال آنا تھا کہ شاہی طبیبوں کو عمر خضر کا حاصل کرنے کے طریقوں پر لگا دیا۔ دل میں کہیں خواہش عمر ابلیس حاصل کرنے کی تھی۔ پر زبان پر عبور حاصل ہونے کی وجہ سے اس معاملے کو بھی نیکی کا رنگ دینے کی کوشش کی۔ ادھر اک دو شاہی طبیب جن کا خود اک پاؤں قبر اور دوسرا کیلے کے چھلکے پر تھا۔ اس بیٹھی بٹھائی مصیبت سے پریشان ہوگئے۔
آخر اپنی زندگی بچانے کو ان بوڑھے شاہی طبیبوں نے فیصلہ یہ کیا کہ ہندوستان کی کسی نام نہاد جڑی بوٹی کا ذکر کرتے ہیں۔ یوں بھی حکمت اہل ہند کی لونڈی ہوا کرتی تھی۔ اور زیادہ تر محدود بھی اسی حد تک ہی تھی۔ لیکن حکماء کا خیال تھا کہ جب تک وہ بوٹی آئے گی۔ وقت گزر جائے گا۔ اور جو حال ہے۔ ہم بھی ساتھ ہی گزر جائیں گے۔ اور نیا طبیب کوئی نیا بہانہ تراش ہی لے گا۔ وگرنہ سزا پائے جس کا وہ حق دار ہوگا۔
لہذا بادشاہ کے سامنے باادب ہو کر جان کی امان پا لینے اور اس کی اچھی طرح تصدیق کر لینے کے بعد عرض کی۔ کہ یہ کام کچھ مشکل نہیں۔ ہندوستان کے ملک میں اک جڑی بوٹی پائی جاتی ہے۔ گر وہ مل جائے تو عمر خضر کی دوا تیار ہوجائے۔
بادشاہ نے اک وفد تیار کیا۔ اور اس میں ناپسندیدہ مشیران کے ساتھ ساتھ اک حکیم کو بھی شامل کر دیا کہ بوٹی کی پہچان کر کے لائے۔
ادھر راجہ بھی کچھ کم بھرم باز نہ تھا۔ جب بادشاہ کا وفد وہاں پہنچا تو اچھے طریقے سے شاہی آداب بجا لینے کے بعد خط پیش کیا۔ خط کا پڑھنا تھا کہ راجہ کا قہقہہ نکل گیا۔ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگیا۔ اور کہنے لگا کہ اس احمق بادشاہ کو کس نے کہا ہے کہ دنیا میں انسان اپنی مرضی سے عمر حاصل کر سکتا ہے۔ اب اس نے پورے وفد کو پہاڑی غار میں قید کر دیا۔ اور کہا کہ جب تک لینڈ سلائیڈنگ نہ ہوگی۔ کسی نے باہر نکلنے کی کوشش کی تو اس کی گردن مار دی جائے گی۔یہ سنکر وفد کا خون خشک ہوگیا۔ اور فشار خون کی رفتار گرنے سے رنگ پیلا پڑ گیا۔ اکثریت نے زندگی میں کبھی نماز نہ پڑھی تھی۔ کجا یہ کہ کوئی نیک کام کیا ہوتا۔ اک جو ایسے کاموں میں پرانا کھلاڑی تھا۔ اس نے کہا کہ آؤ میں حفاظتی دستے سے کوئی مک مکا طے کرتا ہوں۔ اس نے ان کو اک معقول رشوت کے عوض منا لیا۔ اور پہاڑی پر چڑھ کر سب کی مدد سے کوئی چار پانچ چھوٹے بڑے پتھر پھینک دیے۔ تاکہ لینڈ سلائیڈنگ کا واقعہ سچ لگے۔
دو دن وہاں انہوں نے خوب موج مستی کی۔ دن کو شکار کرتے ۔ رات کو آگ کا الاؤ جلا کر اک دوسرے کو اپنے اپنے بادشاہ کی حماقتوں کے قصے سناتے۔ اس کے بعد حفاظتی دستہ ان کو لے کر بادشاہ کی خدمت میں پیش ہوا اور سارا واقعہ عبرت آموز انداز میں سنایا۔ پورا دربار ان کی دعاؤں کی تاثیر کے ایمان افروز واقعات سنکر اشک بار ہوگیا۔ عقیدت کا یہ عالم دیکھ کر وفد میں سے کئی ایک نے سوچا کہ ہندوستان کی فضا پیری مریدی کے لیے بڑی سازگار ہے۔ لیکن اس وقت اپنے آپ کو باز رکھا۔
اس راجہ نے اب اس وفد کو کہا کہ اپنے بادشاہ کے پاس جاؤ۔ اور اس کو یہ ایمان افروز واقعہ سنانے کے بعد کہو میرا یہ پیغام دے دو کہ جسمانی حیات کی بجائے نیکی یا برائی کے کام کر کے ابدی نام کمایا جائے۔

اخلاقی سبق: ایسی کہانیوں کا کوئی اخلاقی سبق نہیں ہوتا۔۔۔ عوامی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہونے اور اپنی حماقتوں کو عقلمندی سمجھنے کی وجہ سے ہر کسی سے بیوقوف بننے والوں بادشاہ کی دوسرے اپنے جیسے ہی بادشاہ پر رعب ڈالنے کی کوشش ہے۔


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔