کیا ڈیڑھ چلو پانی میں
ایمان بہہ گیا
دور جدید کا ایک بڑا
خسارہ برداشت کا جنازہ ہے۔ چند اہل علم و ہنر اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں
اور ان کا خیال ہے کہ مروت، محبت اور رواداری قریب المرگ ضرور ہیں مگر ابھی جنازہ
نہیں اٹھا۔ بعض کے ہاں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ سکرات طاری ہے مگر ممکن ہےکہ پھر
سے صحت پائیں۔ میں ان پرامید لوگوں کی شمع امید گل کرنا نہیں چاہتا مگر ان سے یہ
سوال ضرور پوچھ لیتا ہوں کہ قریب المرگ ہے تو کب تک سرہانے سے لگے اس کو دیکھو
گے؟سکرات طاری ہے تو وینٹیلیٹرز کب تک کام کریں گے؟
موجودہ معاشرے میں جہاں
ایک "فارورڈ" کے بٹن نے تحقیق کا گریباں چاک کیا ہے وہیں "کاپی
پیسٹ" جیسی سہولت تعمیری اور مدلل گفتگو کے لیے پھانسی کا پھندا ثابت ہوئی
ہے۔ آپ اپنا نکتہ نظر سمجھائیں۔ مخالف آپ کو پلوٹو ، سقراط یا پھر کسی اور ایسے ہی
بڑے دانش ور کا قول ا س زور سے مارے گا کہ آپ کو دن میں تارے نظر آجائیں گے۔ آپ
کہیں گے کہ میاں اس بات کے سیاق و سباق کچھ اور ہیں۔ تو وہ جواب میں کسی اور دانش
ور کا کوئی اور اقتباس لا مارے گا۔ اب آپ اس سے کہیں گے کہ بھئی تمہاری رائے کیا
ہے؟ تو وہ آپ کو جواب دے گا کہ "جب تم اتنے بڑے لوگوں کی بات سمجھنے سے قاصر
ہو تو میری رائے کہاں سمجھو گے؟" یا حیرت! یعنی موصوف کی رائے ان دانش وروں
سے بھی بڑی ہے؟ بزعم خود ذہین اور عالم ہونے کی جو غلط فہمی تیز رفتاری سے پرورش پارہی
ہے وہ موجودہ صورتحال میں بڑی زہریلی اور مہلک ہے۔
پچیس دسمبر کو قائد کی
سالگرہ مبارک کے پیغامات کے ساتھ ساتھ کفر کے کتنے فتوے بھی ہواؤں میں داغ دیے
جاتے ہیں۔ سو ہمیشہ کی طرح آج بھی چند پیغامات رقصاں تھے کہ " میری کرسمس کا
مطلب ہے۔ اللہ نے بیٹا جنا (نعوذ باللہ)۔ اور ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔ اور آگے
ایک طویل اصلاحی مکالمہ" میں اس آدھے سچ اور آدھے جھوٹ میں سچ والے حصے سے
متفق ہوں۔ کہ ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے، اور ترجمے سے اختلاف رکھتا ہوں۔ میں مانتا
ہوں کہ ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہے اور میرا ذاتی خیال ہے کہ تمام اہل اسلام عیسائیوں
کو مسلمان سمجھتے بھی نہیں ہیں۔ تو پھر جھگڑا کیا ہے؟ ڈیڑھ چلو پانی میں آپ کا
ایمان نہیں بہتا۔ جھوٹ بولنے سے آپ کو حیا نہیں آتی۔ ملاوٹ کرنے سے بھی ایمان میں
خلل واقع نہیں ہوتا۔ کلمہ پڑھ کر دو نمبر چیزیں فروخت کرنے میں رتی برابر شرم
محسوس نہیں ہوتی۔ اور تو اور من گھڑت باتیں قرون اولیٰ کے لوگوں سے منسوب کر کے
پھیلاتے وقت بھی آپ کا دل نہیں کانپتا۔ تو پھر یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ
کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کو ان کے عقائد کے مطابق ان کے تہوار کی مبارک دے دینا
آپ کو خارج از اسلام کیسے کر دیتا ہے؟ ماسوائے یہ کہ آپ اس عقیدے کے باقاعدہ
پیروکار ہوجائیں۔میں نے جب میسج بھیجنے والے سے استفسار کیا تو انہوں نے جواب میں
ایک اور تصویر شکل کا اقتباس میرے منہ پر دے مارا۔ جو شاید کسی پرائمری پاس (اس
حسنِ گماں پر معذرت) ماجھے گامے کا ڈیزائن کیا ہوا تھا۔میں نے عرض کی اگر تکفیری
فتوی جات کی ہی بات ہو تو اہل اسلام میں کوئی مسلم نہ بچے۔ اس پر انہوں نے مجھ سے
شدید بیزاری کا اظہار کیا۔
خدا را اپنے ذہنوں کو
زحمت دیجیے۔ اس کا کچھ نہ کچھ حصہ دنیا میں استعمال کر لیجیے۔ اور اگر نیا غیر
استعمال شدہ "ڈبا پیک" دماغ روز محشر میں لے جانے پر کوئی انعام و اکرام
مقرر ہے تو ہمیں بھی بتائیے۔ اور اگر ایسا کوئی انعام مقرر نہیں تو اپنے اندر
بھرتی نفرتوں کو ملک عدم کی راہ دکھائیے۔ معاشرتی اور سماجی سطح پر اس برداشت،
رواداری اور مروت کا عملی مظاہرہ کیجیے جس کا اسلام آپ سے تقاضا کرتا ہے۔غور و فکر
کرنے کی عادت ڈالیے۔ نہ کہ یاوہ گوئی اور خرافات بکنے تک محدود ہوجائیے۔ ورنہ یقین
کیجیے کہ وہ دن دور نہیں جب اپنے لکھے کے نیچے لوگ "بقلم خود" کی جگہ
"بگالم خود" لکھا کریں گے اور اس پر فخر محسوس کریں گے۔
از قلم نیرنگ خیال
25 دسمبر 2017
ماشاءاللہ۔۔۔!
آج کل آپ کا قلم خوب رواں چل رہا ہے۔
قلم چلاتے رہیے لیکن غصہ کم کر دیجے۔ :)
آپ کے جیسے سوہنے بندے پر غصہ بہت زیادہ سوٹ نہیں کرتا۔ :)
اچھا احمد بھائی! ایک تو یہ تحریر براہِ راست متعلق نہیں۔ ہاں چونکہ موقع پر ایک مثال موجود تھی سو اس کو کوٹ کر دیا۔ یہ ایک عمومی چلن کے بارے میں تھی۔