بڑے دنوں سے یہ بات میرے ذہن میں گردش کر رہی تھی کہ جب
سے لاہور آیا ہوں دوستوں کے ساتھ مل بیٹھنے
کا وقت ہی نہیں مل رہا۔ چارلس ہنسن کی نظم "آراؤنڈ دا کارنر" بھی یاد آرہی
تھی۔ معمولاتِ زندگی میں اب وقت کیسے نکالا جائے۔ کیسے ملا جائے سب سے۔ پھر یہ سوچ
کر دل بہلا لیتا کہ شاید اب بالمشافہ ملاقاتوں
کا زمانہ بھی اٹھنے والا ہے۔ کوئی دور تھا
ہر وقت ساتھ ہوتے تھے۔ دن رات ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ کر اکتائے رہتے تھے۔
اور اب مہینوں ملاقات ہی نہیں ہوتی۔ بلکہ مہینوں کیا۔۔۔ کئی ایک شکلیں تو
ذہن سے محو ہوئی جاتی ہیں۔ کیسا خوشنما دور تھا۔ کوئی فون کرتا تو کہتے ریسور
رکھ۔ اور چند منٹ بعد اس کے گھر کے باہر کھڑے ہوتے۔ کیسا آسان تھا ملنا۔ یہ بھی خوف
نہیں ہوتا تھا کہ اب بس وقت ختم ہونے والا ہے۔ اب اٹھ کر واپس بھی جانا ہے۔ کتنی ہی
راتیں یوں سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر بیٹھے بیٹھے
کاٹ دیا کرتے تھے۔ کیسا دلچسپ دور تھا۔
آج جب فرقان
مدتوں بعد ملنے آیا تو مجھے وہی دور دوبارہ یاد آگیا۔ کتنا مشکل ہے جب دیار غیر سے
آدمی پلٹ کر آئے۔ اور پھر لاہور اس کا شہر بھی نہ ہو۔ اور وہ وقت نکال کر صرف اور صرف
ملنے آئے۔ اپنے اس چند روزہ قیام میں ہمارے لیے وقت نکال کر لائے۔ بتلائے کہ نہیں دوست!
ملاقاتوں کا دور ابھی گیا نہیں ہے۔ ابھی ہم ادھر ہی ہیں۔ ویسے ہی۔ کیا ہوا جو سنجیدگی
نے ہمارے چہروں پر ڈیرہ جما لیا ہے۔ کیا ہوا جو مہینوں کے حساب سے ہم ایک دوسرے کو
فون تک نہیں کرتے۔ مگر ہم ہیں۔ ادھر ہی اسی جگہ۔ ہوں گے جو وقت کی پکار پر تیز رفتار
زندگی کے ساتھ آگے نکل گئے ہوں گے۔ مگر ہم پرانی قدروں کے ہی گرویدہ
ہیں۔ ہمارے لیے آج بھی ملاقات کا مطلب جا کر ملنا ہی ہے۔ کچھ پل کچھ لمحے جو
ساتھ گزر گئے۔ کتنی ہی انمٹ یادوں کا نشاں چھوڑ گئے۔ ذہن کے قبرستان سے کیسے کیسے مناظر دوبارہ زندہ کر گئے۔ میں تمہاری
ان محبتوں کے لیے بہت شکرگزار ہوں۔ سدا خوش رہو۔
بہت خوب ذوالقرنین بھائی!
سچ کہا۔۔۔!
شکریہ تو بنتا ہے فرقان صاحب کا۔
جب سے سوشل میڈیا آیا ہے انسان کی سماجی سرگرمیاں اور بھی ختم ہو گئی ہیں۔
بالکل۔۔۔ بہت شکریہ احمد بھائی
🙌👍
شکریہ عدن
Achy dost khuda ki bri nemat han
This comment has been removed by the author.