ذرائع سے معلوم ہوا کہ نیا لیپ ٹاپ چند دن میں دے دیا جائے گا۔ دو دن بعد ہارڈ وئیر کے شعبے سے ایک لڑکا سیاہ رنگ کا شاپر سا اٹھائے ہمارے میز تک آ پہنچا۔قریب آنے پر پتا چلا کہ یہ بیگ نما کوئی چیز ہے۔ غور کرنے پر غلط فہمی دور ہوگئی۔ یہ ایک بیگ ہی تھا۔ ہم نے ایک نظر بیگ پر ڈالی۔ایک دریدہ دہن بیگ۔ جس کی ایک سائیڈ لقوہ زدہ لگ رہی تھی۔ لانے والا کانوں سے پکڑ کر اس کا منہ سیدھا اور بند کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ قبل اس کے بیگ کی دریدہ دہنی دیکھ کر ہم منہ پھٹ اور گستاخ ہونے کا الزام لگاتے، ٹوٹی زپ دیکھ کر اس کی معذوری سمجھ میں آگئی۔
"یہ کیا ہے؟" ہم نے کھلے دہن سے اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔
"لیپ ٹاپ"۔ مختصر جواب ملا۔
"کس کا ہے؟" ہم نے دوبارہ سوال کیا۔
"اب تمہارا ہے۔" دوبارہ وہی جواب ملا۔
"پہلے کس کے پاس تھا۔ " ہم نے پھر پوچھا۔
"اس بات کو چھوڑو۔ بہت سے لوگوں کے پاس رہا ہے۔" اسی روکھے انداز میں دوبارہ جواب دیا گیا۔
ہم خاموش ہوگئے۔ خود کو احساس ہوچلا تھا کہ ہمارے سوالات بکرا خریدنے والے کے سوالات جیسے ہوگئے ہیں۔
ہم نے لیپ ٹاپ کو دیکھے بغیر کہا۔ "اس کو اٹھائیں گے کیسے۔ دہن بندی کا کچھ سبب ہو سکتا ہے؟ "
"فی الوقت یہی بیگ ہے۔ گزارہ کرو۔" ٹکا سا جواب ملا۔
سوئی دھاگہ مل جائے گا۔ ہم شاید ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہ تھے۔
اب آنے والے کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ یہ آئی ٹی فرم ہے۔ درزی کی دکان نہیں۔
ہم نے ہنکارہ بھرا۔ اور لیپ ٹاپ کو باہر نکال لیا۔ کئی ایک جگہ زخموں کے گھاؤ تھے ۔ کچھ پرانے مالکین کے دیے تحفے بھی تھے جو اس نے اپنے ماتھے پر تمغوں کی صورت سجا رکھے تھے۔ پاور کا بٹن دبانے پر پہلی بار ہی سکرین روشن ہوگئی۔ دل خوشی سے بھر گیا۔ ہم نے کی بورڈ کی ساری اکائیاں دبا دبا کر دیکھیں۔ سب ہی چلتی تھیں۔ ہم نے اس کے بنائے جانے کی تفصیلات دیکھیں تو اس کو اپنے پرانے والے سے ایک سال کم عمر پایا۔ ابھی جانچ پڑتال میں مصروف تھے کہ اس کا سی ڈی روم خود ہی باہر آگیا۔ ہم نے سی ڈی روم بند کرنے کی بجائے اس لڑکے کو دیکھا جو ابھی تک ہمارے پاس کھڑ ا تھا۔
"یہ نئی سہولت ہے۔ سی ڈی روم کھولنا نہیں پڑے گا۔ "اس نے ہماری نظروں کا مطلب سمجھتے ہوئے کہا۔
"لیکن میں سی ڈی روم استعمال نہیں کرتا۔" ہم نے اپنے آپ کو پرسکون رکھتے ہوئے کہا۔
"تو پھر اس کو بند کر دو۔" اس نے بےاعتنائی سے جواب دیا۔
گھر جا کر چلایا تو نہ چلا۔ بہت کوشش کی۔ لیکن کوئی بات نہ بنی۔ ایسے ہی بیٹری باہر نکالی تو دیکھا کہ اندر ایک پٹی سے ابھری ہے۔ اس کو دبایا تو وہ کھٹک کی آواز کے ساتھ ہی نیچے ہو گئی۔ اب بیٹری لگا کر چلایا تو چل پڑا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد اتنا گرم ہو گیا کہ سکرین پر درجہ حرارت کا اطلاع نامہ کھل گیا۔ اور ساتھ ہی خود بخود بند بھی ہوگیا۔ یہ سہولت مجھے پسند آئی کہ گرم ہوجائے تو خودبخود بند ہوجائے۔ ابھی اٹھا کر دوسرے کمرے میں رکھنے جا رہا تھا کہ کوئی وزنی چیز پاؤں پر گرنے سے چیخ اٹھا۔ بیٹری زمین پر پڑی منہ چڑا رہی تھی۔ اس کا لاک خراب تھا۔ اٹھا کر چلو تو نیچے گر جاتی تھی۔ اب روز کا تماشا ہوگیا۔ بیٹری نکالو۔ پٹی دباؤ۔ پھر چلاؤ۔ سکرین کی ہر زوایے پر ریزولیشن (Resolution)مختلف تھی۔ کچھ جگہ بالکل سفید ہوجاتی تھی۔ اور کچھ جگہ پر کچھ رنگ کم اور کچھ زیادہ ہوجاتے تھے۔ رفتہ رفتہ اس پر بھی ہاتھ سیدھا ہوگیا۔ اب سکرین کھولتے ہی خوب بخود اس زوایے پر ہاتھ رک جاتے تھے۔ جس پر بہترین نظر آتا تھا۔ گرمی کا حل ایک عدد پنکھا لگا کر دور کر لیا گیا۔ سی ڈی روم والا معاملہ میرے لئے کھیل سا بن گیا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ عادت اتنی پختہ ہوگئی کہ اوسطاً میں ہر بیس سیکنڈ بعد خود ہی سی ڈی روم پر ہاتھ مار دیا کرتا تھا۔ چاہے کھلا ہو یا نہ۔ پہلے میں صرف اس کا فین پیڈ چھوڑ کر جانے لگا۔ پھر چارجر اور ماؤس بھی دفتر پڑا رہنے لگا۔ بیگ تو پہلے دن سے ہی میں ذاتی استعمال کر رہا تھا۔ دفتری بیگ وہی پڑا تھا۔ اور آخر آخر یہ صورتحال ہو گئی کہ لیپ ٹاپ بھی وہیں پڑا رہنے لگا۔ میں البتہ گھر آجایا کرتا تھا۔ ایک دن ایک عمر اور عہدے میں بڑے ساتھی نے روک لیا۔ یہ اٹاری تمہاری ہے۔ اٹاری! ہم نے استفہامیہ انداز میں پوچھا۔ ہاں یہ۔ اس نے میرے شاندار لیپ ٹاپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس نے اپنے گستاخ جملوں سے اس بےجان چیز کو جو ٹھیس پہنچائی تھی مجھے سر تا پا سلگا گئی تھی۔ درجہ حرارت بلند ہونے پر ایک لمحہ مجھے خود پر بھی لیپ ٹاپ ہونے کا گمان گزرا۔
یہ ایک لیپ ٹاپ ہے۔ اٹاری نہیں۔ ہم نے غصے سے کہا۔
اوہ اچھا! معذرت۔ میں سمجھا لیپ ٹاپ ایسے ہوتے ہیں۔ اس نے اپنے والے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
نیا نو دن۔ پرانا سو دن۔ ہم نے استہزائیہ انداز میں کہا۔
دن اور سال کا فرق سمجھتے ہو۔ اس نے بھی زہریلی مسکراہٹ سے وار کیا۔
ہم بیٹھ گئے۔ بالکل اس امید وار کی طرح جس کو اپنی ہار کا یقین ہوجائے تو جیتنے والے کے حق میں نتائج سے پہلے ہی بیٹھ جاتا ہے۔
خیر آپ کو کیا مسئلہ ہے اس سے۔ ہم نے اس کے سوال کی وجہ جاننے کی کوشش کرنے کی کوشش کی۔
یہ یہاں کیوں چھوڑ جاتے ہو؟ اس نے پوچھا۔
مرضی ہماری۔ ہم نے ابرو اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
تم اس کو یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ یہ کمپنی کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس کو تمہیں ساتھ گھر لے جانا ہوگا اور اگلے دن لانا بھی ہوگا کہ یہی اصول برائے شودران ہے۔ اس نے ہمیں سمجھاتے ہوئے کہا۔
اس کی اس بات سے بےاختیار ہمیں آغا گل کے افسانے کی ایک سطر یاد آگئی۔ "شاب جی! آپ بھی شودر ہیں کیا مسلمانوں کے؟" اور ایک مسکراہٹ ہمارے چہرے پر پھیل گئی۔
مسکرا کیوں رہے ہو۔ اس نے حیرانی سے پوچھا۔
"ہم ہنس دیے ہم چپ رہے"، اب ہم اس کو کیا بتاتے، ہمارے دل پر کیا بیت گئی ہے۔
Boht khoob🙌
Mirza ka cycle prha tha aur ab nain ka laptop classy ho gya ye to
This comment has been removed by the author.