بنسری توڑ دی گڈریے نے
اور چپکے سے شہر جا کر
کارخانے میں نوکری کر لی
کچھ احباب نے مجھ سے پوچھا کہ اسلم کولسری نے یہاں ایسی کیا بات کی
ہے کہ آپ نے اس کو اپنا صفحے کی تفصیلات میں رکھا ہوا ہے۔ ایک آدھے سے بڑھ
کر بات جب چند لوگوں نے کی تو میں نے سوچا کہ اپنے تئیں اس کی تھوڑی سی
وضاحت کر دی جائے۔ یوں تو خاکم بدہن کسی قابل نہیں اور پھر" المعانی فی البطن
الشاعر" کہہ کر بھی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ لیکن جو میں سمجھتا ہوں۔ اس کو کہنے
میں کیا ہرج ہے، اساتذہ موجود ہیں۔ کہیں کوئی کمی کوتاہی ہوئی تو وہ نشاندہی کر کے
اور درستی فرما کر سرفراز فرمائیں گے۔
یہ جس کا عنوان نوحہ ہے۔ حقیقت میں نوحہ ہی ہے۔ یہ سادگی سے تصنع کی
طرف منتقلی کا نوحہ ہے۔ آزادی سے غلامی کی طرف جانے کا نوحہ ہے۔ نخلستان چھوڑ کر
سراب کے پیچھے بھاگنے کا نوحہ ہے۔ مضبوط اقدار سے فرار کا نوحہ ہے۔ الغرض ایک مکمل
معاشرے کا دوسرے معاشرے میں ڈھل جانے کا نوحہ ہے۔شاعر کو بہت سہولت حاصل ہوتی ہے۔
وہ بہت کم الفاظ میں بہت زیادہ کیفیات، رشتے اور وقت بلکہ صدیوں کا سفر سمیٹ جاتا
ہے۔
انسان اصل میں کسی چیز کو جب توڑتا ہے تو وہ اس وقت، جب وہ اس
کے لیے بیکار ہوجاتی ہے۔ یہ ایک عام رویہ میرے مشاہدے میں ہے کہ ہم کسی چیز کو
بیکار ہونے کے بعد اس کو اکثر یوں نہیں پھینک دیتے۔ بلکہ اس کو توڑ دیتے ہیں۔ کاغذ
ہے تو اس کو پھینکنے سے پہلے پھاڑ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی کسی چھڑی کو
پھینکتا ہے تو اس کو بھی پھینکنے سے پہلے توڑنا نہیں بھولتا۔ بانسری جو کہ ایک
روایتی ثقافت کی امین ہے۔ اس سے کئی داستانیں منسوب ہیں۔ کئی قصے جڑے ہیں۔ کتنی
ہیروں کے دلوں کے تار اس کی دھن سے کبھی چھڑا کرتے تھے۔ وہ اب متروک ٹھہری ہے۔ اب
اس کی سریلی دھن کہیں سننے کو نہیں ملتی۔ اب قدم بانسری کی آواز سن کر رکتےنہیں
ہیں۔ اب رات کے سناٹے میں کبھی کوئی سریلی دھنیں نہیں بکھیرتا ہے۔ گڈریا سادگی
کی علامت ہے۔ قناعت کی علامت ہے۔ تصنع سے پاک ہے۔ وہ اپنے دل کی دھڑکن، اپنی باتیں
سروں کی صورت ہوا میں بکھیر دیتا ہے۔ سماعتیں ان سروں سے لطف لیتی ہیں۔ جتنی سندر
بات اس کے من میں ہوتی ہے۔ اتنا سندر سر اس کی بانسری سے پھوٹتا ہے۔ لے پہچاننے
والے جانتے ہیں کہ خوشی اور غم کے سر سب کیسے اس بانسری سے جنم لے کر ہوا میں
بکھرتے چلے جاتے تھے۔
اور یہی سے اس نوحے کا ذکر ہوتا ہے جو کہ اوپر بیان ہوا ہے۔ اب ان
سروں کو چھوڑ دیا ہے۔ وہ بانسری جس سے دل کی دھنیں ہوا میں بکھرتی تھیں۔ جن میں
ایک تال میل ہوتا تھا۔ وہ ٹوٹ گئی ہے۔ بلکہ توڑ دی گئی ہے۔ وہ گڈریا جو کہ سادگی
کی علامت تھا۔ جس میں تصنع نام کو نہ تھا۔ وہ بھی "چپکے" سے اس جگہ سے
ہٹ گیا ہے۔ اس کوبھی چھپنے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ کس سے چھپنے کی۔ اس معاشرے کی
بدلتی قدروں نے اس کو احساس دلایا ہے کہ یہ اب دنیا تیری نہیں ہے۔ اگر جینا ہے
رہنا ہے تو ان دھنوں کو مشینوں کے شور سے بدلنا ہوگا۔ اس آزادی کو ساہوکار
کے پاس گروی رکھنا ہوگا۔ اب سُر کی جگہ شور سننا ہوگا۔ اب دل کی آواز مشینوں کی
آواز میں کہیں دب جائے گی۔ اب ہوا اس موسقیت سے محروم ہوجائے گی۔ اور یہی تو نوحہ
ہے۔ جہاں بےساختگی چھین لی جائے۔ جہاں زمانے میں کامیابی کا تناسب تصنع و بناوٹ
ہوجائے۔ رشتے کمزور ہو کر قریب المرگ ہوجائیں۔ چوپالین سنسان اور اقدار بےآبرو
ہوجائے۔ تو پھر ایسے میں شام کے ڈھلتے سایوں میں گڈریے اپنے ریوڑ چھوڑ کر بانسری
توڑ کر کارخانوں کے شور میں نہ دب جائیں تو کیا کریں۔ پورا معاشرہ اپنی مضبوط
بنیادیں چھوڑ کر ریت پر بنی عمارتوں میں منتقل ہوجائے تو اس کو نوحہ نہ کہیں تو
کیا کہیں۔
ٹر گئے لوگ سیانے بیبا؛
پیپل ہیٹھاں حقے رہ گئے!
واہ گبول صیب۔۔۔ اعلی۔۔۔ اعلی
Zmana bdl gaya afsos ye tbdeeli musbt km aur mnfi zyada hai