Friday 22 January 2016

محمداحمد بھائی کی غزلیہ داستان اور ہم۔۔۔۔۔

3 comments
آج صبح @محمداحمد بھائی کی ایک غزل آنکھوں کے سامنے آگئی۔ سنا ہے کہ صبح صبح انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عروج پر ہوتی ہے۔ سو ہم نے بھی جب اس غزل کو دوبارہ پڑھا تو ہم پر کئی راز آشکار ہوگئے۔ احمد بھائی کا ہی ایک شعر کہ
اس کے ساتھ ہی ہم پر یہ بھی راز کھلا کہ احمد بھائی نے یہ غزل بھی اہل محفل سے چھپا لی ہے۔ سو ہم نے فوراً سے پیشتر اس کو محفل میں شامل کیا تاکہ لوگ جان سکیں احمد بھائی کی کارستانیاں کیا ہیں۔ آخر یہ آبیاری نخل سخن میں کون کون سے عناصر معاون ثابت ہوتے ہیں۔  
درحقیقت یہ ایک ایسی غزل ہے جو کہ اصل میں ایک داستان ہے۔ مرصع اور مکمل داستان اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ۔ ۔۔۔۔ اس غزل کے اندر جو راز دفن تھے وہ آپ احباب کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ 

تعلق رکھ لیا باقی، تیّقن توڑ آیا ہوں
کسی کا ساتھ دینا تھا، کسی کو چھوڑ آیا ہوں​ 
شاعر نے اپنی دل پھینک طبعیت کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان  کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب ایک نئی دلربا پر نظر پڑی اور محسوس ہوا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پرانے والی  کو خدا حافظ کہا جائے تو میں نے بدگمانی کی ایسی فضا قائم کی کہ یقین کے تمام رشتے ٹوٹتے چلے گئے۔ نئی کا ساتھ دینے کے لیے پرانی سے کنارہ کشی ضروری تھی لیکن دور اندیشی کا تقاضا یہی تھا کہ تعلق باقی پھر بھی رکھا جائےتاکہ اگر وہاں سے ناکامی و نامرادی حصے میں آئے تو پرانے تعلق کو بحال کرنے کی کوئی سبیل نکالی جا سکے۔ شاعر معاملات عشق پر بہت گہری نظر رکھتا ہے۔ 
 
تمھارے ساتھ جینے کی قسم کھانے سے کچھ پہلے​ 
میں کچھ وعدے، کئی قسمیں، کہیں پر توڑ آیا ہوں​ 
پرانے والی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے بعد شاعر نے نئی دلربا کے نخرے دیکھے تو اس کو بھی اشاروں کنایوں میں اپنے کالے ماضی سے آگاہی دی ہے۔  اگر زیادہ بےرخی و نخرے    دکھائے تو یاد رکھو کہ تمہارے ساتھ دینے سے پہلے میں کچھ وعدے قسمیں جو  میں نے کسی اور سے کیے تھے،توڑ ے ہیں ، لہذا  مجھے کوئی ایسا شخص سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے جو بات کر کے لازمی نبھائے گا۔ سیدھے سیدھے میرے ساتھ چلو گی تو سب ٹھیک رہے گا ورنہ   یہی شعر میں کہیں اور پڑھتا نظر آؤں گا۔
 
محبت کانچ کا زنداں تھی یوں سنگِ گراں کب تھی​ 
جہاں سر پھوڑ سکتا تھا، وہیں سر پھوڑ آیا ہوں​
پرانی محبتوں میں شاعر بڑی ہوشیاری سےتمام چالیں چلتا رہا اور اس کا کوئی عشق دنیا کی نظروں میں نہیں آیا لیکن اس بار شاعر کی نئی محبت کا راز فاش ہوگیا اور بات لڑکی کے گھر والوں تک پہنچ گئی۔ بعض اندرونی ذرائع سے معلوم ہوا کہ  نئی دلربا  کے بھائیوں نے شاعر کی گردن پر چھری رکھ کر اس کوکہا کہ چل کاکا۔ شادی کی تیاریاں کر۔ اس پر شاعر کے منہ سے بےاختیار نکلا کہ یہ میرے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔ یہ تو ہلکے نازک رشتے تھے۔ یہ ظالم لوگ اس کو کس موٹے لوہے کے سنگل سے باندھنے چلے ہیں۔ مصرعہ ثانی سے اندازہ ہوا کہ شاعر کی ایک نہ چلی اور اس کو سقراط کی پیروی کرنی پڑی۔  
 
پلٹ کر آگیا لیکن، یوں لگتا ہے کہ اپنا آپ​ 
جہاں تم مجھ سے بچھڑے تھے، وہیں رکھ چھوڑ آیا ہوں
شاعر نے کسی طریقے سے اپنی جان بچا تو لی لیکن اس کی قیمت اس کو بہت زیادہ ادا کرنی پڑی۔ خوب پٹنے کے بعد شاعر کسی طریقے سے جان بچا کر بھاگ تو آیا لیکن اس کے سر سے آئندہ عشق کا بھوت اتر گیا۔ اپنے طرز عمل میں واضح تبدیلی محسوس کرنے کے بعد شاعر نے کہا کہ یوں لگتا ہے کہ تمہارے بچھڑنے کے ساتھ ہی میرا وہ ہر روز نئے عشق لڑانے والا شخص بھی ساتھ ہی بچھڑ گیا ہے۔ بعد میں شاعر مولوی ہوگیا اور لوگوں کو عشق و عاشقی سے باز رہنے کی تلقین کرنے لگا۔ خود اپنی ایک او رغزل میں شاعر نے اپنی ہی مثال یوں پیش کی ہے
لیکن شاعر یہ بھول گیا کہ ہر انسان اپنے تجربات سے سیکھتا ہے۔ ​ 
​ 
اُسے جانے کی جلدی تھی، سومیں آنکھوں ہی آنکھوں میں​ 
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا، وہاں تک چھوڑ آیا ہوں​ 
چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں۔ یہی حال شاعر کا ہے۔ کچھ عرصہ گوشہ نشیں رہنے کے بعد وہ اپنی اسی روش پر پلٹ آیا۔ لیکن اس بار شاعر بےحد محتاط تھا۔ یقینی طور پر اس نے اپنے ماضی سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ سو اس کے بعد کبھی بھولے سے بھی نئی دلربا کی گلی میں پاؤں نہ رکھا۔ انہی دنوں میں ایک دن جب اس کافر ادا نے ناز سے کہا کہ آج آپ مجھے چھوڑ آئیے تو شاعر کی روح فنا ہوگئی۔ فوراً  لڑکھڑا کر گرنے کی اداکاری کی اور کہا، تمہیں ذرا جلدی جانا ہے جب کہ میرے پاؤں میں موچ آگئی ہے لہذا تم آرام سے جاؤ۔ میں یہاں کھڑا تمہیں دیکھ رہا ہوں۔ اگر کسی نے بدتمیزی کی تو میں اس کو دیکھ لوں گا۔ وہ معصوم اس بات پر مطمئن ہو کر چلی گئی اور شاعر بھی اس کے گھر کے اندر جانے کے بعد پلٹ آیا۔ 
 
کہاں تک میں لئے پھرتا محبت کا یہ اِکتارا​ 
سو اب جو سانس ٹوٹی، گیت آدھا چھوڑ آیا ہوں
شاعر اپنی محبوبہ کے روز روز کے تقاضائے شادی سے تنگ آتا جا رہا تھا۔ لہذا اس شعر میں وہ خود کو سمجھانے کی کوشش کررہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ یہ گیت بھی ادھورا ہی چھوڑا جائے۔  اپنے دل کو سمجھانے بجھانے کی کوشش  کہ اب کی بار اگر اس نے ایسا کوئی تقاضا کیا تو پھر میں بنا کچھ کہے، بات مکمل کیے بغیر ہی نکل آؤں گا۔ کچھ کہانیاں بنا انجام کے بھی ہونی چاہیے۔ اسی طرح کے سوچوں میں ڈوبا وہ کوچہ جاناں کے باہر جا پہنچا۔  
​ 
کہاں تک رم کیا جائے، غزالِ دشت کی صورت​ 
سو احمدؔ دشتِ وحشت سے یکایک دوڑ آیا ہوں​
جب شاعر گلی کے باہر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ کافرہ اپنے چھے بھائیوں کے ساتھ کسی جگہ جانے کے لیے گھر سے نکلی ہے۔ اس منظر کا دیکھنا تھا کہ شاعر کی ہوائیاں عقاب کے پر لگا کر اڑ گئیں۔ کچھ پرانی تلخ یادیں اعصاب پر اس طرح سوار ہوئیں کہ شاعر کو لگا کہ وہ زمیں میں گڑ گیا ہے۔ پھر جو ایکا ایکی وہ وہاں سے بھاگا ہے تو پلٹ کر نہیں دیکھا۔ اس منظر کے چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ وہ شخص جو چلنے سے بھی اوازار تھا ایسا دوڑا ہے کہ شہر کا شہر بھاگ کر عبور کر گیا اور پبلک ٹرانسپورٹ کا سہارا بھی نہیں لیا۔ اس شعر میں شاعر نے اپنی اسی کیفیت کا اظہار کیا ہے کہ میں تو پہلے ہی اس کوچے میں ہرن کی طرح ہمہ وقت بھاگنے کے لیے چوکنا رہتا تھا۔ لیکن اس دن جو منظر دیکھا ہے تو  توبہ کر لی کہ اتنے شکاریوں میں یہ ہرن بچ نہ پائے گا۔ 

3 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔