Thursday, 31 December 2015

اوستھا

10 comments
2015 اپنے اختتام کو پہنچا۔ نئے سال کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔ کتنے سالوں سے یہی عادت ہے کہ سالِ نو کے آغاز میں ارادے باندھنا اور سال کے آخر میں ان بوسیدہ  منصوبوں کو دفن کر دینا۔ آج بھی ایک ایسا ہی دن ہے۔ کتنے منصوبے دفنا رہا ہوں جو اس سال کے آغاز میں  بڑے جذبے سے بنائے گئے تھے۔ اس وقت یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کی تکمیل کرنے میں صرف چند دن کا فاصلہ ہے ۔  یہ چند دن کب چند ہفتے اور پھر مہینے سے ہوتے ہوئے سال میں ڈھل گئے اگر سوچنے بیٹھوں تو شاید کوئی وجہ نہ تلاش کر سکوں۔ چائے...

Wednesday, 30 December 2015

ای میلز اُڑا دیجے

2 comments
ای میلز   اُڑا دیجے (جون ایلیا سے معذرت کے ساتھ) فاتح بھائی کی محبتوں نے اس نظم کو نکھار دیا ہے۔ تم نے مجھ کو لکھا ہے"میلز سب اُڑا دیجےمجھ کو فکر رہتی ہےدفع آئی ڈی کیجےآپ کا اکاؤنٹ گرہیک ہوا تو کیا ہو گادیکھیے میں کہتی ہوں، یہ بہت برا ہو گا""میں بھی کچھ کہوں تم سے!فارحہ نگارینہ!فیس بک کی شاہینہاردو ویب کی تہمینہشوخ تو تمھیں تھیں نامیں تمھاری ای میلیںکرتا آرکائو ہوںہے سوادِ بینائی، ان میں جو ہیں تصویریںارکئوز اڑا دوں کیا؟جو بھی ان کے بیک اپ ہیںڈبلو ڈی ڈرائیو پرڈبلو ڈی ڈرائیو کوفارمیٹ...

Monday, 30 November 2015

قصہ پھر ایک اور دن کا

7 comments
مجھے آج تک اس بات پر حیرانی ہے کہ تاریخ کون لکھتا ہے۔ کیا تاریخ اسی وقت لکھی جاتی ہے جب کوئی واقعہ رونما ہو۔ یا اس کے صدیوں بعد کوئی مؤرخ اٹھ کر آدھے سچے آدھے جھوٹے واقعات اٹھا کر اپنے تخیل کو بروئے کار لا کر تاریخ مرتب کرتا ہے۔ خیر اگر مؤرخ نے تاریخ کو بعد میں لکھنا ہے تو ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم اس کو مناسب معلومات فراہم کرتے جائیں۔ ذیلی واقعے کا مطالعہ کرنے کے بعد مؤرخ جب تاریخ لکھے گا تو چھے نومبر2015 کا دن سنہرے حروف سے لکھے گا۔ خدا کی بےنیازی کے جن مظاہر کا مشاہدہ اُس دن اِس نگاہ رندی نے...

Tuesday, 3 November 2015

سامنے دھری

5 comments
بزرگ فرماتے ہیں کہ چھپی ہوئی تو سب ڈھونڈ لیتے ہیں۔ سامنے دھری اکثر نظر نہیں آتی۔ اس بات پر ہم بہت ہنسا کرتے تھے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی، "سامنے دھری نظر نہ آئے"، اندھے کو نظر نہ آتی ہو تو اور بات ہے۔ لیکن زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہم نے محسوس کیا کہ یہ بات کچھ ایسی بےمعنی نہیں۔ کبھی ایسا ہوتا کہ ہم بےاختیار پکار اٹھتے۔ "اوہ! یہ پہلے کیوں نہ دیکھا۔ سامنے کی بات تھی۔" کبھی دل سے آواز آتی۔ "خاموش! اب سب کے سامنے اس بات کا تذکرہ کر کے خود کی عزت نہ کروا لینا۔ یہ تو کسی اندھے کو بھی نظر...

Wednesday, 30 September 2015

تماشائی

6 comments
چند دن پہلے کی بات ہے  شہر سے باہر جاتی سڑک پر  ایک کار سے کتا ٹکر گیا۔کار والا بغیررکے نکلتا چلا گیا۔  کتا شدید زخمی حالت میں سڑک پر کراہ رہا تھا۔  ہم  جائے حادثہ سے کچھ فاصلے پر تھے۔ قبل اس کے ہم کتے تک پہنچتے۔ دو لڑکے موٹر سائیکل پر اس کے پاس رکے۔ جیب سے موبائل نکالا  اور مرتے کتے کی ویڈیو بنانے لگے۔ ایک آدھے منٹ کی ویڈیو بنانے کے بعد وہ دونوں موٹر سائیکل پر بیٹھے اور یہ جا وہ جا۔ ہم  کتے کے پاس پہنچے تو وہ مر چکا تھا۔ میں نے اور میرے دو ست نے کتے کو گھسیٹ...

Saturday, 26 September 2015

ذرا سی بات تھی۔۔۔۔۔

4 comments
ہمیں یاد نہیں کہ آخری بار ہم نے کب اور کس عید کی آمد پر "ہرّا! عید آگئی۔۔۔۔ " قسم کا نعرہ مارا تھا۔ نیا جوتا پہن کر مسجد جانے کی رسم بھی ایک عقیدت مند نے چھڑوا دی تھی۔ گو کہ ہم سید نہیں لیکن جوتوں سے کس کو پتا چلتا ہے۔ واللہ اس کی نیت بری نہ رہی ہوگی۔ جذبات و عقیدت کے بہتے دھارے نے مہلت ہی نہ دی ہوگی کہ رک کر کھرا کھوٹا سمجھتا۔ ہائے لوٹا گیا ظالم۔۔۔ صحیح جوتی کی تلاش میں نجانے کتنی الماریاں بھر دیں ہوں گی۔ شاید اب مایوس ہوگیا ہوگا۔ اللہ اس کے دل کی مراد بر لائے۔ لیکن اس کی...

Thursday, 3 September 2015

ایک پرانی یاد (ماضی کے جھروکوں سے)

3 comments
راقم القصہ لاہور میں اپنے ۴ دوستوں سمیت اک کرائے کے فلیٹ پر رہتا تھا۔ ان دوستوں کیساتھ میں کوئی ۲۰۰۰ سے لیکر ۲۰۱۱ تک رہا ہوں۔ بے تکلف تو تھے ہی پر شرارتی بھی بہت تھے۔ یہ جو واقعہ ہے میں سنانے جا رہا ہوں کوئی ۲۰۰۳ کا ہوگا۔ کوئی بھی اس میں عبرت یا سبق تلاش کرنے کی غرض سے پڑھ رہا ہے تو یہی سے واپس ہو جائے کیوں کہ عبرت انگیز واقعات میرے ساتھ آج تک پیش نہیں آئے۔ ​ لگے ہاتھوں اپنے دوستوں کا تعارف بھی کروا دیتا ہوں کہ واقعے میں آپ کو لطف آئے۔ اور سیاق و سباق سے آگاہی ہو۔ میں یعنی کہ میں اور...

Thursday, 30 July 2015

کون اب پیار سے پوچھے گا، میاں کیسے ہو!

9 comments
اکادمی ادبیات میں شاکر القادری صاحب کے اعزاز میں دی گئی تقریب میں تلمیذ سر سے پہلی ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد فون پر رابطہ رہنے لگا۔ پنجابی کے حوالے سے مجھے جب بھی کسی مشکل کا سامنا ہوتا۔ میں فوراً اصغر صاحب سے رابطہ کرتا۔ اکثر فون آتا تو سلام کے بعد ان کے مخصوص انداز میں یہی جملہ ہوتا۔ "نین صااب کیہ حال نیں۔ عشبہ کیسی اے؟" پھر محمد زین العابدین کی پیدائش کے بعد اس کو بھی کبھی نہیں بھولے۔ گزشتہ تین سالوں میں مہینے میں کم سے کم بھی دو بار تو لازماً ان سے بات ہوا کرتی تھی۔ایک بار کچھ عرصہ...

Sunday, 5 July 2015

چوہدری اور افطار

0 comments
چوہدری اور افطار احباب کے مابین رمضان کریم میں افطار پارٹیوں کا عروج نصف رمضان گزرنے کے بعد ہی شروع ہو تاتھا۔ لیکن چوہدری کو افطار  پر بلانے سے چڑ تھی۔ افطار پر جاتے تو سہی لیکن بلاتے کبھی نہ تھے۔ کہتے میاں میں ایک نیک آدمی ہوں۔ لہذا میری خواہش یہ ہوتی ہے کہ جو بھی مجھے افطار کروائے میرے اس دن کے روزے کا ثواب جس کا کوئی شمار ہی نہیں ہوتا اس کو بھی ملے۔ یوں سمجھو کہ اگر میں افطار پر جاتا ہوں تو احسان کرتا ہوں۔ اپنے اس دن کی تمام نیکیاں ان لوگوں کے نامۂ اعمال میں لکھوا آتا ہوں جن کی زندگی...

Wednesday, 25 March 2015

بیمار کا حال اچھا ہے۔

8 comments
تیمار داری ہماری معاشرتی، مذہبی اور اخلاقی اقدار میں بہت اہم درجہ رکھتی ہے۔ بچپن میں جب ہمارے بڑے کسی کی تیمارداری کرنے کو جایا کرتے تھے تو کبھی ہمیں بھی ساتھ لے جاتے۔ ہماری حاضری  اس پورے قصے میں ایک خاموش تماشائی سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔   مریض چاہے کوئی ہو،  منظر عمومی طور پر ایک جیسا ہی ہوتا تھا۔ موسم کے مطابق اس میں چند ضروری تبدیلیاں ہوتی تھیں،  باقی چیزیں یکسانیت کا ہی شکار ہوتی تھیں۔ مثال کے طور پر ہر منظر میں بیمار  لیٹا ہوا ہوتا  تھا۔آپ کہیں گے لیٹا ہی...