Wednesday 11 June 2014

ٹھہراؤ از قلم نیرنگ خیال

10 comments
ٹھہراؤ

اُس کے سینے پر عجیب سا دباؤ تھا اور سانس رکتا محسوس ہو رہا تھا۔ جیسے ہی آنکھ کھولی تو دیکھا کہ وہ ایک تالاب میں ڈوب رہا ہے۔ گھبراہٹ کا طاری ہونا ایک فطری  عمل تھا سو ڈوبنے سے بچاؤ کی  بڑی کوشش کی۔ بہت  ہاتھ پاؤں مارے۔لیکن جتنی کوشش کرتااتنا ہی دھنستا چلا جاتا۔ تالاب کا پانی کسی کہسار سے نکلتے دریا کی مانند بھپرا لگ رہا تھا۔اٹھا اٹھا کر بے رحمی سے پٹخ رہا تھا۔ کنارے پر پہنچنے کی ، ڈوبنے سے بچنے کی ہر کوشش ناکام ہوتی نظر آتی تھی۔ کوئی سہارا ہاتھ نہ آرہا تھا۔ ڈوبنے ابھرنے کے درمیان کیا دیکھتا ہے کہ کچھ لوگ کنارے پر موجود ہیں۔ باہرسکون سے  کھڑے ہیں۔ سب سے بےنیاز۔ جیسے ان کو کوئی پرواہ ہی نہیں کہ کوئی ڈوب رہا ہے۔ ان کو مدد کے لیے پکارنے کی کوشش کی تو پانی حلق سے نیچے تک چلا گیا۔ آواز گھٹ گئی۔ اور منظر دھندلا سا گیا۔ اعصاب شل ہوتے جا رہے تھے۔ اور جسم ٹوٹ رہا تھا۔اس کی کوششیں دم توڑتی جاتی تھیں۔ اور ایسے میں جو عجب چیز اس کو محسوس ہوئی  جیسے کوششوں کے دم توڑنے کے ساتھ طغیانی بھی کم ہوئی جاتی ہے۔  اجل کسی بھی لمحے میزبانی کو آنے والا تھا۔ آخر تھک کر اس نے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اور خود کو تالاب کے حوالے کرتے ہوئے آنکھیں  بند کر لیں۔ اس کے ساتھ ہی اس کو سکون سا محسوس ہوا۔ تالاب کی طغیانی بالکل ختم ہوگئی۔ اور ٹھہراؤ آتا چلا گیا۔ اس نےاپنی مایوس آنکھیں کھول کر دیکھا۔ وہ پانی کی سطح پر تیر رہا تھا۔ اس کا جسم ہلکے ہلکے دائروں پر ہچکولے کھا رہا تھا۔ اس کو یہ سکون رگ و پے میں اترتا محسوس ہونے لگا۔ اک عجب سکون کے إحساس نے ہر طرف سے گھیر لیا۔ اور گزشتہ تمام واقعات محض ایک ڈراؤنا خواب محسوس ہونے لگے۔  وہ تالاب کے اندر ہی تیرنے لگا۔ اس نے تالاب سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو تالاب نے واپس کھینچ لیا۔ لیکن آہستہ آہستہ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ تالاب کے پانی پر اسکا مکمل کنڑول ہوگیا تھا۔ اب وہ جب چاہتا طغیانی لے آتا۔ جب چاہتا سمندر کی طرح سطح کو پرسکون کر لیتا۔اس نے یہ راز پا لیا تھا کہ اس تالاب کی مرضی کے خلاف جدوجہد طغیانی کو جنم دیتی ہے۔ اور اس کے بہاؤ کے ساتھ بہنا سکون لاتا ہے۔  پھر وہ باہر نکل آیا۔ اس نے دیکھا کہ کتنے ہی تالاب بنے ہوئے ہیں۔ ہر تالاب پر کسی نہ کسی کا نام لکھا ہے۔ بہت سے تالاب بپھرے پڑے ہیں۔ اور بہت سے ساکت ہیں۔ کچھ درمیانی کیفیات میں ہیں۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ جو لوگ تالاب میں مسلسل جدوجہد کر کے نکلنا چاہ رہے ہیں۔ اور طغیانی کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ اور نہ اس کا وجود ماننے کو۔ وہ ڈوبتے جاتے ہیں۔ جبکہ جو لوگ پرسکون ہیں۔ وہ اپنے اپنے تالاب پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ اس کی اپنے تالاب سے بہت دوستی ہوگئی۔ کوئی کام ہو نہ ہو۔ وہ اپنے تالاب کا چکر ضرور لگا لیتا۔ اور وہاں بیٹھ کر اپنی کیفیات سے لطف اندوز ہوا کرتا۔ جب وہ طغیانی سے لڑا کرتا تھا۔ کبھی مستی میں کچھ لہروں کو پیدا کر کے دیکھتا۔ اور پھر بھیگتا رہتا۔ زندگی کے اس تالاب میں ٹھہراؤ ہی اس کی سب سے بڑی فتح تھی۔


کچھ منتشر خیالات پیش خدمت ہیں۔ بے ربط جملوں اور غلطیوں سے چشم پوشی کی درخواست ہے۔

10 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔