Sunday 11 May 2014

بکرے کی ماں

0 comments


سوال:
بکرے کی ماں کب تک خیر مناے گی
بکرے کی امی حضور ہی کیوں خیر مناتی ہیں
ابا حضور کو کیا مسئلہ ہے جو ان کو خیر کی پرواہ نہیں

نیرنگ خیال:
آپ نے جیسا کہ مشہور مقولہ اپنے پہلے سوال میں پوچھا ہے۔۔۔ اس سوال کے جواب میں میرا ایک سوال ہے۔۔۔ کہ یہ اگلی دو سطریں بھی اس سوال کا حصہ ہیں۔ یا الگ سے سوالات ہیں۔۔۔
ہیلو
ہیلو
میرا خیال ہے لائن کٹ گئی ہے۔۔۔
تو قارئین ہم اپنی سمجھ کے مطابق جواب دیتے ہیں۔۔۔ کہ یہ شاید ایک ہی سوال ہے جس کے مختلف پہلوؤں کو اگلی سطور میں واضح کیا گیا ہے۔
تو جنا ب اب آتے ہیں جواب کی طرف۔۔۔۔
ہاں! تو ماں کی حیثیت تو سب کے لئے مُسلّم ہے۔ چاہے وہ بکرے کی ماں ہو یا اس کی جو بکرا بنا ہے۔ بس فرق صرف یہ پڑتا ہے کہ بکرے کی ماں بکری ہوتی ہے۔ اور بکرا بننے والے کی ماں عموما ساس کہلاتی ہے۔ اور بیچاری بہت سی تنقید کا نشانہ بنی رہتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ سب بے جا ہے۔ دراصل اس شہرت کے پیچھے صدیوں کی کاوشیں اور محنت ہے۔ آج بکرا بنانے والی جب کل خود بکرے کی ماں بنتی ہیں۔ تو ان سے نئی بکرا بنانے والیوں کو بھی وہی شکوے ہوتے ہیں۔ جب انہوں نے کسی کو بکرا بنایا تھا تو ان کو اس بکرے کی ماں سے تھے۔۔۔ خیر یہ بات بہت گھمبیر ہوگئی۔۔۔۔
لہذا قارئین واپس بکرے کی طرف لوٹتے ہیں۔ تو جناب اردو زبان کا مشہور محاورہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی عمومی طور پر تب بولا جاتا ہے۔ جب کوئی آپ کو چکمہ دے کر نکل جائے۔ اور آپ دل کو کینہ سے بھر کر تاڑ میں ہوں کہ اب کسی دن میرا داؤ بھی چلے گا۔
آپ کے سوال کا اگلا حصہ تھا کہ آخر ماں ہی کیوں۔۔۔ بکرے کا باپ کیوں نہیں۔ تویہاں میں بکروں کی خانگی زندگی کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہوں گا کہ بکرے انسانوں کی طرح ظلم سہنے کے عادی نہیں ہوتے۔ لہذا اکثر اوقات بکرے کی والدہ سے نہ بننے پر علیحدگی ہوجاتی ہے۔ مزید یہ کہ اکثر بکرے بیچارے قصائیوں کے عتاب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جو ان سے بچتے ہیں وہ عید قربان پر دوبارہ بالواسطہ قصائیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تو بکرا تو ہر صورت چھری کے نیچے آیا ہی رہتا ہے۔ جبکہ بکرے کی ماں عمومی صنف مخالف کی طرح چکمہ دے کر نکل جاتی ہے۔ اور شاید ہی کبھی ہاتھ آتی ہو۔ تو بڑے سیانوں نے یہاں تانیث پر بھی گہرا طنز جڑ اہے۔
یہاں پر میں آپ سب سے یہ بھی گزارش کرنا چاہوں گا کہ ہم کو ایسے تمام محاورات کو ختم کرنا چاہیے اور زبان سے خارج کر دینا چاہیے جو کسی بھی طور کسی تذکیر و تانیث کےتعصب کے فروغ کا باعث ہوں۔ یا پھر دل میں کینہ پال کر آپ کی اخلاقی اقدار تباہ کرنے کے درپے ہوں۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔