یہ شہر سے باہر جانے والی سڑک تھی۔ شہر سے نکلتے ہی اسی سڑک کے ساتھ ساتھ خانہ بدوشوں کی بے شمار جھونپڑیاں تھیں۔ وہیں پر بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ کوئی کم سن بچہ کسی کار کے نیچے آکر کچلا گیا تھا۔ مغرب کے قریب کا وقت تھا۔ اور بچہ جھونپڑیوں سے نکل کر ایکا ایکی کار کے سامنے آگیا۔ نتیجہ کے طور پر جو ہوا سب کے سامنے تھا۔ کار والا بے بسی سے ہاتھ مل رہا تھا۔ وہ شکل و صورت سے کسی متمول گھرانے کا فرد لگتا تھا۔ بے انتہا کوشش کے باوجود وہ اس ننھے کی جان نہ بچا سکا تھا۔ سب لوگ یہی کہہ رہے تھے کہ کار والے کا قصور نہیں۔ پر کسی کی جان لینے کا بوجھ اس کے دل پر سوار تھا۔ پولیس آگئی۔ اور فریقین کے درمیان کاروائی اور وہاں موجود لوگوں کے بیانات کے بعد کچھ معاملات طے پا گئے۔ کار والے نے بچے کے باپ کو دو لاکھ اپنی طرف سے ادا کیے کہ کچھ وہ اس کے غم کا مداوا کر سکے۔دن گزر گئے۔ لوگ اس حادثہ کو بھول گئے۔ وقت نے صبح و شام کے پیراہن میں اپنا سفر جاری رکھا ۔وہ اک بہت ہی سخت دن تھا۔ کم از کم اس جھونپڑی میں بسنے والوں کے لیے۔ دو دن سے فاقہ تھا۔ جھونپڑی کے اندر موجود چار بچے بھوک سے بلک رہے تھے۔ اک سال کے قریب عمر کا بچہ ماں کی گود میں تھا۔ پر بھوک کو اس کی معصومیت پر کوئی ترس نہیں آ یا تھا۔ اور نقاہت کے سبب اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔ماں کبھی اپنے بچوں کو دیکھتی اور کبھی سر جھکا کر رونا شروع کر دیتی۔ پر بچوں کو ان آنسووں سے کوئی سروکار نہ تھا۔ ان کا تقاضا تو روٹی تھا۔ جس کا وجود اس جھونپڑی سے عنقا تھا۔ آخر ماں کے جی میں کوئی بات سما گئی۔ اس نے بچوں سے کہا کہ اب سب خاموش ہو جاؤ۔ میں تمہارے کھانے پینے کے لیے روٹی کا کوئی بندوبست کرتی ہو۔ ماں کے تسلی کے چند الفاظ بھی بچوں کی بھوک کو کم نہ کر سکے۔ مگر اک امید سے ان کی آنکھیں جگمگا اٹھیں۔ ماں نے چھوٹا بچہ اٹھایا اور باہر نکل گئی۔ اور باقی سب جھونپڑی کے دروازے پر لٹکے پردے پر آنکھیں ٹکا کر بیٹھ گئے۔سڑک کنارے ہجوم جمع تھا۔ موڑ کے ساتھ ہی اک حادثہ ہو گیا تھا۔ لوگوں کی آنکھیں پر نم تھیں۔ چھوٹا سا قریب ایک سال کی عمر کا بچہ پتا نہیں کہاں سے بیچ سڑک آگیا اور اک ٹرک کے نیچے آ کر کچلا گیا تھا۔رات کو جھونپڑی سے بچوں کے رونے کی کوئی آواز نہیں تھی۔ ہاں اک ماں کی سسکاریاں کبھی کبھی بلند ہو کر سناٹا چیر رہی تھیں۔
بلاگ کا کھوجی
موضوعات
- IT Poetry (4)
- آئی ٹی شاعری (4)
- آئی ٹی مشورے (1)
- آپ بیتی (2)
- احقر کی رقم طرازیاں (90)
- بابا بلہے شاہ (10)
- باکمال بزرگ (7)
- بچوں کا ادب (1)
- بچوں کے لیے کہانی (1)
- بونگیاں (20)
- پنجابی تحریریں (1)
- پنجابی شاعری (10)
- تشریح (2)
- حکایات نیرنگ (16)
- روزمرہ کے معمولات سے (14)
- رویے (6)
- زینیات (2)
- سال رفتہ (3)
- سوشل میڈیا (1)
- شوخیاں گستاخیاں (42)
- صوفیانہ کلام (10)
- عینیت پسندی (2)
- فکاہیہ تشریح (2)
- قائد اعظم (1)
- کہانی (1)
- گپ شپ (8)
- گفتگو (1)
- محمداحمد (2)
- مزاحیہ تشریح (4)
- مزاحیہ شاعری (5)
- مکالمہ (1)
- ملاقاتیں (3)
- نیا سال (4)
- نیرنگ کے قلم سے (44)
- ہمارا معاشرہ (19)
- یاد ماضی (3)
- یوم آزادی (1)
کچھ میرے بارے میں
حلقہ احباب
آمدورفت
80,143
ٹریفک
ہر بلاگ کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں اسی طرح اس بلاگ کے بھی محفوظ ہیں. Powered by Blogger.
Search
زمرہ جات
- IT Poetry (4)
- آئی ٹی شاعری (4)
- آئی ٹی مشورے (1)
- آپ بیتی (2)
- احقر کی رقم طرازیاں (90)
- بابا بلہے شاہ (10)
- باکمال بزرگ (7)
- بچوں کا ادب (1)
- بچوں کے لیے کہانی (1)
- بونگیاں (20)
- پنجابی تحریریں (1)
- پنجابی شاعری (10)
- تشریح (2)
- حکایات نیرنگ (16)
- روزمرہ کے معمولات سے (14)
- رویے (6)
- زینیات (2)
- سال رفتہ (3)
- سوشل میڈیا (1)
- شوخیاں گستاخیاں (42)
- صوفیانہ کلام (10)
- عینیت پسندی (2)
- فکاہیہ تشریح (2)
- قائد اعظم (1)
- کہانی (1)
- گپ شپ (8)
- گفتگو (1)
- محمداحمد (2)
- مزاحیہ تشریح (4)
- مزاحیہ شاعری (5)
- مکالمہ (1)
- ملاقاتیں (3)
- نیا سال (4)
- نیرنگ کے قلم سے (44)
- ہمارا معاشرہ (19)
- یاد ماضی (3)
- یوم آزادی (1)
لمّی اُڈیک
میری ایک چھوٹی جیہی پنجابی نظم لمّی اُڈیک دل دی سخت زمین اندر خورے کنّے ورھیاں توں کئی قسماں دیاں سدھراں دبیاں اکّو سٹ اُڈ...
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔