Tuesday 19 February 2013

خسارہ

2 comments
یہ شہر کے شور ہنگاموں سے کافی دور اک چھوٹا سا گاؤں تھا۔سالانہ پانی اور زرخیز زمین کی بدولت گاؤں کی پیداوار زیادہ تھی اور لوگ خوشحال تھے۔ گاؤں کے وسط میں گاؤں اکلوتی جامع مسجد زیر تعمیر تھی۔ دین کی راہ میں اکثر وسائل محدود ہی ہوتے ہیں۔ سو اسی بنیاد پر تعمیر کا کام بہت آہستہ آہستہ سر انجام پا رہا تھا۔ گاؤں کا بڑا وڈیرہ ہی تعمیر کا زیادہ خرچ اٹھا رہا تھا۔

گرمیوں کی اک دوپہر میں اک نئے ماڈل کی کار آکر رکی۔ اور اس میں سے اک خوش لباس آدمی اترا۔ اس نے اردگرد نگاہ دوڑائی۔ اجنبی آدمی دیکھ کر کچھ لوگ خبر گیری کو پہنچے۔ اس آدمی نے پانی کی درخواست کی۔ گاؤں کے وڈیرے نے اسے اپنے ڈیرے پر بٹھا لیا۔ اور اسکی ہر ممکنہ خدمت کی۔ اور گاؤں میں آمد کا سبب بھی پوچھا۔ اس آدمی نے کہا کہ میں ویزے لگوانے کا کام کرتا ہوں۔ اور کچھ گاؤں آگے اک اور گاؤں ہے۔ اور اسکے لوگوں کے لیئے بیرونی ممالک کے ویزے کا بندوبست کیا ہے۔ ابھی بس انکے پاس ہی جا رہا ہوں۔ آدھےلوگوں کا کام ہوگیا۔ اور بقیہ کا بھی جلد ہی کروا دوں گا۔ اس آدمی نے کچھ اس انداز میں اپنے کام اور نیکی کا نقشہ کھینچا کہ لوگوں کو گمان ہونے لگا کہ اس سے زیادہ ایماندار آدمی اس پیشے میں اور نہ ہوگا۔

یونہی باتوں باتوں میں اس آدمی نے پوچھا کہ میں پہلے بھی اک دوبار یہاں سے گزرا ہوں تو مسجد کی تعمیر میں کچھ اضافہ نہیں ہوا۔ گرمیوں کا موسم ہے۔ تو پنکھے بھی نہیں لگوا رکھے۔ اس پر گاؤں کے بڑوں نے حالات اور درپیش مسائل سے نبٹنے کے لیئے وسائل کے فقدان کے متعلق آگاہی دی۔ اس آدمی نے جیب سے ساٹھ ہزار روپیہ نکال کر گاؤں کے بڑوں کے ہاتھ پر رکھا۔ اور کہا کہ اللہ کے گھر کی تعمیر میں کسی قسم کی دیری اچھی بات نہیں۔ ہم لوگ اپنے سارے کام تو کر لیتے ہیں۔ پر جہاں معاملہ دین اور اللہ کے گھر کا آجائے۔ وہاں پر ہم ہمیشہ ہی قلیل وسائل کا رونا روتے ہیں۔ میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ اور میری طرف سے یہ رقم ہدیہ سمجھ کر رکھیئے۔ اور مسجد کی تعمیر کا کام جلد مکمل کرائیے۔ پنکھے بھی لگوا دیجیئے۔ تاکہ نمازی حضرات کو زیادہ تنگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس نے کہا کہ میری زندگی میں کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ میں اللہ کے گھر پر خرچ کرنے میں کسی بھی قسم کی پس و پیش سے کام نہیں لیتا۔ یہ اک ایسا کاروبار ہے کہ جس میں مجھے کبھی نقصان نہیں ہوا۔ سب لوگ اسکے اس جذبہ پر حیران رہ گئے۔اور اسکے ایمان اور عقیدہ کی پختگی کی داد دینے لگے۔ وہ آدمی اپنی کار میں بیٹھا اور اپنی راہ لی۔

ہفتہ کے بعد اس آدمی کا چکر لگا۔ اس نے ویسے ہی حال احوال لیا گاؤں والوں کا۔ تھوڑی گپ شپ کی۔ مسجد کی تعمیر کا جائزہ لیا۔ اور پوچھا کہ اب مزید کتنی لاگت آسکتی ہے اس کی تعمیر پر۔ اسکے بعد کچھ رقم اور اسی مد میں منتظمین کے ہاتھ پر رکھی۔ اور دوبارہ ملاقات کا وعدہ کرکے نکل گیا۔

اس کچھ عرصہ میں اسکی فیاضی اور خوش گفتاری کے باعث گاؤں میں لوگ اس سے کافی متاثر نظر آتے تھے۔ گاؤں کے کئی لڑکوں نے بھی باہر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اور وڈیرے سے درخواست کی کہ وہ اس ضمن میں کل خرچہ کہ متعلق اس شخص سے استفسار کریں۔

اگلی بار اسکی آمد پر گاؤں کے بزرگوں نے اس سے اس سلسلہ میں گفتگو کی۔اس شخص نے سب کو سمجھایا کہ اس پر کافی زیادہ خرچہ ہوتا ہے۔ اور قریب قریب بھی ابتدائی مراحل مکمل کرنے پر اک لاکھ کے قریب خرچہ آئے گا۔ اپنا گاؤں زمین اور خاندان ہے۔ کیا ضرورت ہے ملک چھوڑ کر جانے کی۔ آپ سب کو سمجھائیں۔ اس نے کہا کہ اگلا چکر میرا آخری ہوگا۔ اسکی وجہ اک تو یہ ہے کہ میرا کام اب ختم ہونے کو ہے۔ ان لوگو ں کو ویزے دے کر میں اپنی ذمہ داری سے احسن طریقے سے عہدہ برآ ہوجاؤں گا۔ اسکے بعد اس نے مسجد کے انتظامات کرنے والے مہتمم کو چالیس ہزار اور دیئے اور کہا کہ مسجد میں قالین کا مناسب بندوبست کروا دیں۔یہ گھر جتنا خوبصورت ہو اتنا میں سمجھوں گا کہ محنت ٹھکانے لگی۔

گاؤں کے وہ لوگ جو باہر جانے کے معاملے میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے تھے۔ انہوں نے کسی طور روپے کا بندوبست کیا۔ اور اسکے اگلے چکر کا انتظار کرنے لگے۔
اگلے چکر پر اس نے مسجد میں آکر دو نفل شکرانے کے ادا کیئے۔ اور بڑی خوشی سے گاؤں کے بڑوں کو بتایا کہ اسکو سرخروئی حاصل ہوئی ہے۔ اور اس نے جتنی درخواستیں جمع کرائیں تھیں۔ ساری منظور ہوگئیں۔ اسکے بعد وہ ان لوگوں کو ان کی امانتیں بھی لوٹا آیا ہے۔ اور خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہے۔ گاؤں کے بزرگوں نے ان نوجوانوں کی بابت بتایا جو باہر جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اور رقم کا انتظام بھی کیئے بیٹھے ہیں۔ اس نے اک بار پھر سب کو سمجھایا کہ دیکھو سب کچھ اس ملک میں ہی ہے۔ اور اپنے خاندان سے بہتر نعمت کچھ نہیں۔ مگر ان لوگوں کی بحث کے آگے آخر اس نے ہتھیار ڈال کرحامی بھر لی۔ دس کے قریب لوگوں نے اسے اپنے کاغذات اور رقم تھمائی۔ اس نے بار بار بڑے عاجزانہ انداز میں لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر لوگوں نے اس کو کہا کہ نہیں براہ مہربانی آپ ہمارے لیئے درخواست جمع کرادیں۔ دس لاکھ کے قریب رقم لے کر وہ اس گاؤں سے نکلا۔

اس رات گاؤں کے نوجوان باہر کے ملک کے سپنے دیکھتے سو گئے۔ اور اسکی گاڑی کبھی بھی واپس نہ آنے کے لیئے وہاں سے جا رہی تھی۔ باہر بڑی شاہراہ پر وہ نمبر پلیٹ بدلتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ واقعی اللہ اپنے وعدے کے مطابق اک کے دس دیتا ہے۔ بے شک اس کاروبار میں خسارے کا کوئی اندیشہ نہیں۔

2 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔