Tuesday, 31 December 2013

کہروا

6 comments
حسب معمول صبح فجر کے وقت آنکھ کھلی۔ اذانوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اٹھ کر کھڑکی سے باہر جھانکنے کی کوشش کی۔ لیکن دھند کے باعث کچھ نظر نہیں آیا۔ نماز کے بعد چائے بنائی اور کپ پکڑ کر گھر سے باہر نکل آیا۔ آج 2013 کا آخری سورج طلوع ہونے والا ہے۔ میں اس سورج پر ایک الوداعی نگاہ ڈالنا چاہتا ہوں۔ کیوں؟ مجھے معلوم نہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے ڈوبتے سورج پر الوداعی نگاہ ڈالنا عادت تھی۔ اس سال اپنی روایت بدلنے کا سوچا۔ طلوع ہوتا سورج دیکھا جائے گا۔ سورج کو اس چیز سے کوئی سروکار نہیں کہ کون سا دن سال اور...

Thursday, 19 December 2013

باکمال بزرگ - قسط چہارم - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

2 comments
گزشتہ سے پیوستہ: کچھ ثانیے یوں ہی گزرے تھے۔ کہ دوسرے بزرگ نے کہا۔  چل اب شرمانا چھوڑ۔ تجھے وہ دلارا یاد ہے۔ وہ جس کو سب زنگی کہتے تھے۔ یہ بات سن کر پہلے بزرگ ہنسنے لگے۔ یہاں تک کہ ان کو کھانسی لگ گئی۔  پہلے بزرگ نے کھانسنے کے درمیان  یوں ہاتھ ہلایا۔ جیسے کہہ رہے ہوں چھوڑ یار!  اور جب ذرا کھانسی تھمی تو انہوں نے واقعی یہی کہا۔ اور مزید اضافہ کرتے ہوئے  کہا۔ کہ یہ بچے یقین نہ کریں گے۔ اس پر ایک چوپال میں موجود ایک نوجوان بولا۔ جناب ہم کیوں یقین نہ کریں گے۔ آپ سنائیں۔...

Thursday, 12 December 2013

باکمال بزرگ - قسط سوئم - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

4 comments
گزشتہ سے پیوستہ: شام کو چوپال میں اسی طاقت کے تذکرے تھے۔ کہ کیسے کیسے لوگ زیرزمین سو گئے۔ ایک بزرگ نے فرمایا۔۔۔ بیٹا یہ سب پرانی خوراکوں کا اثر ہے۔ مجھے دیکھو۔۔۔ تمام نوجوانوں نے ایک نظر بزرگ پر ڈالی۔ ہڈیاں ہی ہڈیاں۔۔۔ آنکھوں پر کوئی ساٹھ نمبر کا چشمہ اور ہاتھ رعشے کی وجہ سے مسلسل لرزاں۔۔۔ اس پر ایک نوجوان کو پھبتی سوجھی۔ اس نے کہا میں نے بھی پرانی خوراکیں کھا رکھی ہیں۔ ابھی ابھی پرسوں کا رکھا  کھانا کھا کر آرہا ہوں۔ اس پر بزرگ جلال میں آگئے۔۔ یوں بھی ایسی باتوں پر جلال میں آنا بنتا ہے۔ ...

Wednesday, 11 December 2013

باکمال بزرگ - قسط دوم - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

6 comments
راقم نے اس نابکار کو گھورا۔۔۔۔ اور بزرگ کے قدم چھونے کے لیے آگے بڑھا۔ جذب عقیدت سے سرشار تھی طبیعت ۔ بس یوں سمجھیے کہ "اے تن میرا چشمہ ہووے" والا مصرعہ اسی دن ہی سمجھ آیا۔ اب  جو بزرگ سے باہم گفتگو بڑھی۔۔۔ تو انہوں نے اپنے خاندان میں گزرے اک اور بزرگ کی شہ زوری کے واقعات سے پردہ اٹھایا۔۔۔ ذرا انہی بزرگ کی زبانی سنیے۔۔۔ بزرگ اپنے سامنے بیٹھے نوجوانوں کو  دیکھا۔۔ اور کہا۔۔۔ کیا جوانیاں تمہاری ہیں۔۔۔ نوجوانوں۔۔ بس ذرا آٹے کی بوری اٹھاتے ہو تو ہانپنے لگتے ہو۔۔۔  یہ پیچھے ڈیرے...

باکمال بزرگ - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

10 comments
آپ کبھی بچے بھی رہے ہوں گے۔ اور جب بچے ہوں گے تب آپ نے اپنے بزرگوں کے کارنامے بھی سنے ہوں گے۔۔ ایسے ایسے کارنامے کے عقل دنگ رہ جائے۔ بھئی کیا کمال دور تھا۔۔۔ کیسے کیسے بزرگ ہوا کرتے تھے۔  اس دور میں تو یہاں تک مشہور تھا کہ بزرگ ہو اور باکمال نہ ہو۔۔۔ سمجھو بزرگ ہی نہیں۔۔۔۔ ایسے ہی کچھ باکمال بزرگوں کی زندگیوں سے کچھ سبق آموز واقعات پیش خدمت ہیں۔ تو جناب یہ بزرگ تھے بہت زبردست۔۔۔ پیدل چلنے کے بہت شوقین تھے۔۔۔ پیدل چلنا۔۔ لاہور سے جو نکلنا تو امرتسر چلے جانا۔۔۔ پورے گھر والوں نے علاقے کی...

Monday, 2 December 2013

دسمبر پر ایک غزل کی فکاہیہ تشریح

15 comments
ہمارے حال پر رویا دسمبر​ وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر​ شاعر دسمبر کی اوس کو بھی اغیار کی طعنہ زنی سمجھ رہا ہے۔ کتابی باتوں نے شاعر کا دماغ اتنا خراب کر دیا ہے کہ وہ یہ بھی بھول بیٹھا ہے کہ ساون دسمبر میں نہیں آتا۔ اصل میں شاعر اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے انکی کوئی وجہ تلاش کرنے کے چکر میں ہے۔ اب اور کوئی نہ ملا تو یہ الزام اس نے مہینے کے سر منڈھ دیا۔ گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو​ نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر​ کوئی اللہ کا بندہ پوچھے کہ جہاں سارا سال گزرا وہاں ان اکتیس دنوں کو کیا بیماری...

Wednesday, 20 November 2013

طمانچہ​

4 comments
طمانچہ​ (مرکزی خیال ماخوذ) یہ ملک کے اک انتہائی پسماندہ علاقے میں شہر سے بہت دور دریا کے ساتھ ساتھ کچھ گاؤں تھے۔ کاروبار زندگی رواں رکھنے کو یہاں لوگ باہمی اتفاق سے کام چلاتے تھے۔ لوہار، نائی اور موچی کو اجرت فصلوں کی کٹائی پر فصل کی صورت دی جاتی تھی۔ کسی بھی باہمی ناچاقی یا لین دین کے تنازعہ پر سردار کا فیصلہ حتمی ہوتا تھا۔ انہی گاؤں کی سرحد کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں خانہ بدوشوں کی جھونپڑیاں تھیں۔ یہ خانہ بدوش ہمیشہ سر جھکا کر رکھتے۔ ہر قسم کی تذلیل کو خاموشی سے برداشت کرتے اور کبھی پلٹ کر...

Thursday, 14 November 2013

خاقان مساحت داں (المعروف کتب برار)

4 comments
ایک دن کا ذکر ہے۔۔ اب تک مجھے یہ بات نہیں سمجھ آئی کہ یہ ہمیشہ ایک دن ہی کا کیوں ذکر ہوتا ہے۔ کبھی دوسرے تیسرے دن کا ذکر کیوں نہیں ہوتا۔ یا پھر ایک رات کا ذکر چھیڑنے میں کیا مضائقہ ہے۔ سو کہانی ہماری ہے۔ اس لیے ہم روایت شکن کہلائیں گے۔ اور کہانی کا آغاز دوسرے دن  سے کریں گے۔ تو  دوستو!!! دوسرے دن کا ذکر ہے۔ جی جی بالکل! یہ دوسرا دن وہی جو پہلے دن اور پہلی رات کے بعد آتا ہے۔ اب کوئی اسے ولیمے کا دن نہ سمجھ بیٹھے۔ ولیمے کا نام سنتے ہی معنی خیز مسکراہٹیں شروع۔ میاں کہیں تو شرافت اور...

Monday, 11 November 2013

شہید و ہلاک

2 comments
جب چنگیز خان و ہلاکو خان فرات کے کنارے اپنی کشتیاں سیدھی کر رہے تھے۔ تو بغداد کی علم گاہوں میں "والضالین" کی قرأت پر بحث ہو رہی تھی۔ جب انگریزی افواج مغل سلطنت پر آخری حملہ کے لیے حکمت عملی وضع کر رہی تھیں تو بادشاہ سلامت اپنے کلام کی نوک پلک سنوارنے میں مشغول تھے۔  اور آج جب ایک اور طاقت تمہاری سرحدوں پر بگل بجا رہی ہے تو تم ہلاک و شہید کے بیکار مباحث میں الجھے اپنے اپنے مسلک کا بوجھ لیے اپنے بغض کی نکاسی کا سامان کرنے میں مصروف ہو۔  جون صحیح فرماتے تھے۔۔ "ہم حد سے گئے گزرے لوگ...

Saturday, 2 November 2013

آلکسی

2 comments
سستی اور انسان کا دوستانہ کتنا پرانا ہے۔ اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ بعض سست دانوں کے نزدیک یہ تب سے ہے جب سے انسان وجود میں آیا۔ جبکہ بعض روایات کے مطابق تب سے ہے جب سے انسان نے کھچوا دریافت کیا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پہلے سستی نہ ہوتی تھی۔ اور اگر ہوتی بھی تھی۔ تو اس کا نام کچھ اور تھا۔ تاہم کچھ قدیم کچھوؤں نے اس بات پر اپنے اعتراضات محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ اور بوجہ سستی ریکارڈ کروانے سے قاصر ہیں۔ قدیم زبانوں میں اس کیفیت کو پوستی کیفیت سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔ جب کہ کچھ کہ ہاں آلکسی کا لفظ مستعمل...

Tuesday, 8 October 2013

آٹھ اکتوبر 2005 از قلم نیرنگ

8 comments
عجب یاسیت نے گھیر رکھا ہے۔ آٹھ سال بیت گئے۔ آج صبح سے ذہن دفتری کاموں میں الجھا ہے۔ ایک لمحہ فرصت کا میسر نہیں آیا۔۔۔ شام ہوئی تو تنہا بیٹھتے ہی یہ یادیں ملنے آگئیں۔۔۔۔ میں رات کو ملازمت کرتا دن کو پڑھتا تھا۔ ابھی دفتر ہی میں موجود تھا۔ گھر کو روانگی کی تیاری تھی۔ زمین سے قریبا 40 فٹ نیچے منزل پر بیٹھا تھا کہ زمین ہلنے لگی۔ دیواروں میں شگاف پڑ گئے۔ اور اعصاب آن واحد میں شل ہوگئے۔ سب کو نکلنے کا عندیہ دیا۔ سب سے آخر میں میں اور ایک دوست نکلے۔ یونہی ذہن میں خیال آیا کہ فائل روم پر نظر مار لوں۔ شاید...

Friday, 6 September 2013

یوم دفاع از قلمِ نیرنگ خیال

4 comments
قوموں کی داستان عروج و زوال سے مزین ہے۔ چاہے یہ قومی تشخص کی بنیاد مذہب پر ہو یا جغرافیائی حدود پر۔ پاکستان خوش قسمتی سے وہ خطہ ہے کہ جو دونوں دولتوں سے مالا مال ہے۔ خیر تذکرہ اس وقت عروج و زوال کا ہے۔ تو ہر قوم کی تاریخ میں وقت کچھ ایسی گھڑیاں ضرور لاتا ہے۔ جب ذاتی مفاد، جان و مال ملکی و اجتماعی مفادات کے آگے ہیچ ہوجاتے ہیں۔ ان آزمائش کی گھڑیوں میں جب قوم اپنے فرض سے آنکھیں چراتی ہیں۔ کڑیل جوان میدان جنگ کی بجائے گھر میں چھپنے کو ترجیح دیں۔ تو ایسی قوموں کے مقدر میں آنے والا لمحات کا سورج خوشی...

Thursday, 5 September 2013

صحرا فطرت

4 comments
کچھ منتشر خیالات۔۔۔ ​ صحرا سحر سے بھرا ہے۔۔ ۔۔ گر کسی نے رات کو صحرا میں قیام کیا ہے۔ تو وہ صحرا کی دلنشیں راتوں کے گیت گاتا نظر آئے گا۔ اور گر کسی کا واسطہ محض نخلستان سے پڑا ہے۔ تو وہ آپ کو کھجور کے درختوں اور میٹھے پانی کے چشموں کے گن گاتا نظر آئے گا۔ صحرا کی دھوپ کا شکار آپ کو صحرا کی تپش، جلن اور دور دور تک سایہ نہ ہونے کی شکایت کرتا ملے گا۔۔۔ وہ سراب کے متعلق بھی آپ کو بتائے گا۔ اور پیاس کی شدت کا بیان بھی اسی کے لبوں سے جاری ہوگا۔ کچھ لوگ صحرا کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کی ذات اپنی تمام تر خوبصورتیوں...

Saturday, 27 July 2013

بےحال سے زحال تک

8 comments
بھلے وقتوں کی بات ہے۔۔۔ جب ہم محفل میں آتے تو تھے۔ پر ہماری مرزا صاحب سے ملاقات نہ تھی۔ آتے تھے چلے جاتے تھے۔۔۔ لیکن کبھی کبھی جو مرزا کے آواز سماعتوں میں رس گھولتی۔۔ تو سوچنے ۔لگتے کہ کیسا آدمی ہے۔۔۔ ہمیشہ مثبت بات ہی کرتا ہے۔ پھر سوچا باتیں مثبت ہیں۔۔۔ کہ شخصیت منفی ہوگی۔۔۔ اس کی کھوج لگانے کو جو ہم نے بھی آغاز گفتگو کیا تو شخصیت بھی مثبت پائی۔۔۔ بعد از مدت بھید یہ کھلا کہ موصوف اتنے مثبت اس لیے ہیں کہ زندگی میں "وٹامن She" کی شدید کمی ہے۔ جب یہ خبر سننے کو ملی۔۔ تو پہلا گماں تو موصوف...

فکر تجربی

0 comments
فکر تجربی​پیش ہے اک جہاں دیدہ مچھیرے کی داستاںپرانے وقتوں کی بات ہے۔۔۔ کتنے پرانے ۔۔۔ جب مچھیرا کی رمز نئی نئی ایجاد ہوئی تھی۔ تو کئی لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کر مچھیرا کہلانے کو مچھلیوں کا شکار کیا کرتے تھے۔ مگر مؤرخ بڑا مورکھ تھا۔ اس نے بھی ایسے لوگوں کو مچھیرے کے خطاب سے نہ نوازا۔ بلکہ جو صرف مچھلیاں پکڑ کر اپنی گزر اوقات کا بندوبست کرتا۔ اس کو مچھیرے کے خطاب سے نوازا۔تو ایسے ہی وقتوں میں اک مچھیرا تھا۔ جو کہ مچھلیاں پکڑتا تھا۔ اب کوئی پوچھے کہ ہرن کیوں نہیں مارتا تھا۔ پرندے کیوں نہیں پکڑ لیتا تھا۔...

کمال ارتشا

0 comments
​ کمال ارتشا​ معمولات عوام سے نابلد بادشاہوں کا وہی پرانا قصہ​ ​ پرانا دور بھی کمال دور تھا۔۔۔ ۔ سیانے ہر اچھی بری عادت بادشاہ پر ڈال کر اپنی راہ لگتے تھے۔ جیسی عوام ویسا حکمران کا مقولہ بھی ایجاد نہ ہوا تھا۔ اور بادشاہ بھی ہنسی خوشی ہر اچھی اور بری عادت کو اپنا فخر سمجھتے تھے۔ پھر ہر دور کے بادشاہ مختلف ہوا کرتے تھے۔ کبھی ظالم بادشاہوں کا دور آتا تو روئے زمین پر یا کم از کم حکایات میں ہر طرف ظالم سے ظالم بادشاہ دیکھنے کو ملتا۔ ایسے ایسے ظلم کرتے کہ آج کے دور کے لوگ سنیں تواکثر افراد کی...

Monday, 13 May 2013

دھاندلی کیا ہے!!!

1 comments
دھاندلی ہے کیا؟ سب سے پہلے تو ہمیں اس کے لغوی مطلب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سنسکرت  کے لفظ دوند سے ماخوذ اردو میں دھاند "ل" اضافے دھاندل کے ساتھ "ی" بطور لاحقہ لگانے سے دھاندلی کا لفظ وجود میں آیا۔ اس کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں۔ لغت کے حوالوں سے شاید 1922 کو "گوشۂ عافیت" میں تحریرا مستعمل ملتا ہے۔ اور معانی ہیں۔۔ اصل بات کو چھپانے کا عمل، مکروفریب، بےایمانی، دھوکااب آپ سوچیں گے کہ یہ بات تو ہم سب پہلے سے جانتے تھے۔ عام سا لفظ ہے۔ ہمارے لیے اس میں کچھ بھی نیا نہیں۔ تو میں بھی یہی عرض کرنے والا...