Saturday, 19 July 2014

شیف

1 comments
شام ڈھلنے کے قریب تھی۔ سامنے ٹی وی پر ایک ہی چینل بہت دیر سے چل رہا تھا۔ ہم کبھی ٹی وی پر نگاہ ڈالتے تو کبھی چند گز دور پڑے ریموٹ  پر۔ دل چاہ رہا تھا کہ اٹھ کر ریموٹ اٹھا   لیں۔  لیکن اس سے ہماری  سست طبع پر حرف آنے کا شدید امکان تھا۔اگرچہ گھر میں اور کوئی نہ تھا جو کہہ سکتا کہ اس نے خود اٹھ کر ریموٹ اٹھا یا ہے لیکن  کراماً کاتبین کو صرف اس کام کے لئے جگانا مناسب خیال نہ کیا۔ اورخود کوبھی  کیا جواب دیتے۔ کہ محض ایک ریموٹ اٹھانے کی خاطر ہی بستر سے جدائی اختیار...

Thursday, 17 July 2014

ایک بہت پرانا دور تھا​

2 comments
ایک بہت پرانا دور تھا​ ایک بہت پرانا دور تھا۔ اتنا پرانا کہ پرانے لوگ بھی اس کو پرانا کہتے تھے۔ ایسے ہی ایک دور میں دو دوست کہیں جا رہے تھے۔ اس دور کی خاص بات یہ بھی تھی کہ کہیں بھی جایا جا سکتا تھا۔ کوئی پوچھتا نہ تھا کہ کہیں سے کیا مراد ہے؟ آج کے دور کی طرح سوال جواب نہیں ہوتے تھے کہ کہیں بھی جاؤ تو بتا کر جاؤ ، کہاں جا رہے ہو۔ بس کہیں کا مقصد کہیں ہوتا تھا۔ ایسے جانے والے دوست کبھی تو چند دن میں لوٹ آیا کرتے تھے۔ اور کبھی مدتوں نہیں لوٹا کرتے تھے۔ بس راہ جانے والوں کو لوٹا کرتے تھے۔ اور...

Tuesday, 15 July 2014

یہ شاخِ نور جسے ظلمتوں نے سینچا ہے

5 comments
عہد حاضر بلاشبہ خون ریزی و فساد کا دور ہے۔ جدھر جدھر نگاہ جاتی ہے لاشے نظر آتے ہیں۔ کوئی سر بریدہ بچہ تو کوئی جسم  بریدہ بوڑھا۔ کہیں خون کا تالاب تو کہیں اعضاء در و دیوار سے چپکے ہوئے۔ کوئی زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کرنے کو زندہ درگور کیا جا رہا ہے۔ تو کوئی بیٹا اپنی ماں کی لاش کے پاس اس امید سے بیٹھا ہے کہ ابھی ماں اٹھ کر اس کو سینے سے لگا لے گی۔ اس ظالم و جابر دنیا کے ظلم و جبر سے بچا لے گی۔ کوئی زخمی اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی آنتوں کو سنبھالے ہے۔ تو کوئی اپنے ہی زخم پر مرحم رکھنے کے واسطے...

Sunday, 6 July 2014

باکمال بزرگ - قسط پنجم - مؤتمن مؤرخ نیرنگ خیال

6 comments
گزشتہ سے پیوستہ: وہ خوراک والے قصے تو رہ ہی  گئے۔ ایک نوجوان ہاتھ ملتے ہوئے ملتمس ہوا۔ بھئی آج تو میں بہت تھک گیا ہوں۔ ویسے بھی رات شروع ہو گئی ہے۔ اس قصے کو کسی اور دن پر اٹھا  رکھو۔ چند دن گاؤں کے نوجوانوں کی زبان پر انہی لوگوں کے قصے تھے۔ اور ہر کوئی اپنے اپنے مزاج کے مطابق لطف اٹھا رہا تھا۔ کہ ایک دن راقم الحروف نے بزرگ کو دوبارہ چوپال میں چھاپ لیا۔ اور کہا کہ آج ادھورے قصے سنے بغیر ہم نہ جائیں گے۔ باقی سب نے بھی بھرپور تائید کی۔ اور بزرگ کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ چوپال سج گئی۔ بزرگ...

Wednesday, 2 July 2014

خاک نشیں کو پرواز کا تخیل بھی عجب ہے

1 comments
خاک نشیں کو پرواز کا تخیل بھی عجب ہے۔علم کی بنیاد پیمانہ خالی رکھنے پر ہے۔ صاحب علم کے سامنے جوں جوں ادراک کی گرہیں کھلتی ہیں، اس کو اپنا پیمانہ اور بھی خالی نظر آنے لگتا ہے۔ ہوس بڑھتی ہے کہ مزید کچھ اس پیمانے میں ڈالا جائے۔ جوں جوں آگہی کے باب کھلتے ہیں اپنی کم علمی کھل کر سامنے آتی جاتی ہے۔ دل مزید کی تمنا کے لیے تڑپتا ہے۔ ایسے میں کسی بھی معاملے پر بلند پروازی اس کو عجب نظر آتی ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ آگہی کے فلک پر کتنے ہی ضیغم ہیں جو اس کو زیر کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ صاحب علم ان کی بلند...