Saturday, 1 March 2014

خواجہ اور ڈڈو (تاریخ کے جھروکوں سے)

19 comments
بڑے پرانے وقتوں کا ذکر ہے۔۔۔ کہ ایک خواجہ ہوا کرتا تھا۔ کسی سے اس کی نہ بنتی تھی۔ دوست تو درکنار کوئی اس غریب کو سلام کر کے راضی نہ تھا۔۔۔۔ درویش طبیعت ایک دن اکتا گئی دنیا کے جھمیلوں سے۔۔۔۔ بس خواجہ نے نعرہ مستانہ مارا۔۔۔۔ یا آبادی۔۔۔ اللہ حافظ۔۔۔ اور نکل پڑا۔۔۔۔ بس وہ کیا کہتے ہیں نہ سدھ بدھ کی لی نہ منگل کی لی نکل شہر سے راہ جنگل کی لی بس یونہی درختوں کی چھال کھاتا۔۔۔۔ پرنالوں کا پانی پیتا چلا جا رہا تھا۔۔۔ چلا جا رہا تھا۔۔۔ کہ جنگل کے بیچ جا پہنچا۔۔۔۔ دیکھتا کیا ہے کہ ایک تالاب ہے۔۔۔ جس...