میں مسجد میں تحیۃ المسجد ادا کر رہا تھا۔ اس ذکر سے نمودونمائش ہرگز مقصود نہیں۔ کیوں کہ اگر یہی مقصد ہوتا تو میں تہجد، اشراق، چاشت، اوابین اور تحیتہ الوضو کا بھی لازمی ذکر کرتا۔ مگر الحمداللہ چونکہ طبیعت ریاکاری سے بالکل پاک ہے تو صرف واقعہ بیان کرنا مقصد ہے۔ ہاں کوئی اسے نیکی کی ترغیب سمجھے تو اپنی نیک نیتی کا صلہ پائے گا۔ہاں تو میں بات کر رہا تھا کہ دوران نماز سگریٹ کی ناگوار بدبو نے مجھے بے چین کر کے رکھ دیا۔ عرصہ ہوا جب حج سے واپس آیا تو پکے سے توبہ کر چکا تھا۔ لیکن آج یہ بدبو دوبارہ اعصاب پر...
بلاگ کا کھوجی
موضوعات
- IT Poetry (4)
- آئی ٹی شاعری (4)
- آئی ٹی مشورے (1)
- آپ بیتی (2)
- احقر کی رقم طرازیاں (90)
- بابا بلہے شاہ (10)
- باکمال بزرگ (7)
- بچوں کا ادب (1)
- بچوں کے لیے کہانی (1)
- بونگیاں (20)
- پنجابی تحریریں (1)
- پنجابی شاعری (10)
- تشریح (2)
- حکایات نیرنگ (16)
- روزمرہ کے معمولات سے (14)
- رویے (6)
- زینیات (2)
- سال رفتہ (3)
- سوشل میڈیا (1)
- شوخیاں گستاخیاں (42)
- صوفیانہ کلام (10)
- عینیت پسندی (2)
- فکاہیہ تشریح (2)
- قائد اعظم (1)
- کہانی (1)
- گپ شپ (8)
- گفتگو (1)
- محمداحمد (2)
- مزاحیہ تشریح (4)
- مزاحیہ شاعری (5)
- مکالمہ (1)
- ملاقاتیں (3)
- نیا سال (4)
- نیرنگ کے قلم سے (44)
- ہمارا معاشرہ (19)
- یاد ماضی (3)
- یوم آزادی (1)
کچھ میرے بارے میں
حلقہ احباب
آمدورفت
ٹریفک
ہر بلاگ کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں اسی طرح اس بلاگ کے بھی محفوظ ہیں. Powered by Blogger.
Search
زمرہ جات
- IT Poetry (4)
- آئی ٹی شاعری (4)
- آئی ٹی مشورے (1)
- آپ بیتی (2)
- احقر کی رقم طرازیاں (90)
- بابا بلہے شاہ (10)
- باکمال بزرگ (7)
- بچوں کا ادب (1)
- بچوں کے لیے کہانی (1)
- بونگیاں (20)
- پنجابی تحریریں (1)
- پنجابی شاعری (10)
- تشریح (2)
- حکایات نیرنگ (16)
- روزمرہ کے معمولات سے (14)
- رویے (6)
- زینیات (2)
- سال رفتہ (3)
- سوشل میڈیا (1)
- شوخیاں گستاخیاں (42)
- صوفیانہ کلام (10)
- عینیت پسندی (2)
- فکاہیہ تشریح (2)
- قائد اعظم (1)
- کہانی (1)
- گپ شپ (8)
- گفتگو (1)
- محمداحمد (2)
- مزاحیہ تشریح (4)
- مزاحیہ شاعری (5)
- مکالمہ (1)
- ملاقاتیں (3)
- نیا سال (4)
- نیرنگ کے قلم سے (44)
- ہمارا معاشرہ (19)
- یاد ماضی (3)
- یوم آزادی (1)
لمّی اُڈیک
میری ایک چھوٹی جیہی پنجابی نظم لمّی اُڈیک دل دی سخت زمین اندر خورے کنّے ورھیاں توں کئی قسماں دیاں سدھراں دبیاں اکّو سٹ اُڈ...
صفحات
Friday, 30 November 2012
Wednesday, 28 November 2012
مظلوم غلام اور احمق دانا (شیخ سعدی کی روح سے معذرت کے ساتھ)
ایک بادشاہ کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہا تھا۔ کشتی اس لیئے کہ کروز اور لانچ کا دور نہ تھا۔ آبدوز بھی ایجاد نہ ہوئی تھی۔ کچھ درباری اور چند غلام بھی ساتھ تھے۔ وہ ساتھ نہ ہوتے تو پروٹو کول کسطرح پورا ہوتا۔ سب کہتے کتنا غریب بادشاہ ہے۔ بغیر پروٹوکول کے پھرتا ہے۔ یہ سارے غلام ایسے تھے جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھے تھے اور شوق میں ساتھ چلے آئے تھے اور اب پچھتا رہے تھے۔ مگر اک ایسا تھا جو اپنا خوف نہ چھپا پا رہا تھا۔ اور ڈوب جانے کے خوف سے رو رہا تھا۔ موت برحق ہے والے مقولے پر اس کا ایمان...
حکایات کا بے جا استعمال
ایک بچہ بہت بدتمیز اور غصے کا تیز تھا۔ اسے بات بے بات فوراً غصہ آجاتا ، وہ تمام عوامل جن کی وجہ سے وہ اسقدر بدتمیز اور غصیلہ تھا اگران کا ذمہ دار والدین کو ٹھہرایا جائے گا تو کہانی آگے نہ بڑھے گی حالانکہ سچ بات یہی ہے۔ خیر حکایت آگے بڑھانے کو ہم وجہ کو نظر انداز کرتے ہیں تا کہ لوگوں کو عبرت آموز حکایت پڑھنے کو ملے۔ اور دیکھیں کے بچے کے والدین کو احساس ہوا یا نہیں اپنی کوتاہیوں کا اور انہوں نے اس کے سدھار کے لیئے کوئی کوشش کی یا نہیں۔ اور اگر ایسی حکایات نہ بنے گیں تو لوگوں کا کیا بنے گا۔...
انداز بیاں اور
کہتے ہیں کسی ملک پر اک بادشاہ کی حکومت تھی۔ یاد رہے یہ ایس-ایچ –او بادشاہ نہ تھا۔ کیوں کہ ہمارے ہاں عام روایت ہے کہ ایس-ایچ-او بھی اپنے علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے۔ بادشاہ دن بھر امور مملکت میں مشغول رہتا عبادت گزار بھی تھا ایسا لوگ کہتے۔شکار کا بھی شوقین تھا۔ بندھے ہرن مارنے میں کمال مہارت تھی۔ ان تمام کارگزاریوں کے بعد رات کو تھک ہار کر سوتا۔ گہری نیند اتنی کہ سویا مویا والہ مقولہ اس کو دیکھ کر ہی بنا ہوگا۔ خواب اول تو آتے ہی نہ ہونگے اس قدر گہری نیند میں ؛اور اگر اک آدھا بھولا بھٹکا خواب آ...
سادہ منش امام
سالوں پہلے کی بات ہے جب مولوی لوگوں کو بھی باہر کے ویزے مل جاتے تھے تب اک ایسا ہی بھولا بھٹکا مولوی لوگوں کی باتوں میں آ کر یہاں کی پیری جیسی رنگین مسند تیاگ کر لندن جیسے بے رونق اور بد عقیدہ شہر میں صرف اور صرف اسلام کی سرفرازی کے لیئے جا پہنچا۔ڈیوٹی پر آنے جانے کے لیئے عوامی بسوں کا استعمال معمول بن گیا کیوں کہ اب کوئی مرید تو تھا نہیں جو اپنی پجارو اسی کام کے لیئے وقف کر رکھتا۔ شروع میں یہ فضا دل کو راس نہ آئی مگر بیچ بیچ میں جب عوام کی چال چلن اور بازاروں کی رونق دیکھی تو رفتہ رفتہ دل کو...
پلاسٹک کی پلیٹ
پلاسٹک کی پلیٹ کسی کام کی نہیں ہے۔
----------------------------------------
یہ اس آدمی کے بچے کا قصہ ہےجس کے بڈھے باپ کے ساتھ کیئے گئے ناروا سلوک کی دل ہلا دینے والی داستاں آپ نے پڑھ رکھی ہوگی۔
باپ کی طرح وہ ہر طرح سے خوش حال تھا اور وجہ ورثہ میں ملنے والی بے بہا دولت تھی ۔
اس کی زندگی ہی میں اس کی ساری اولاد کی شادیاں ہوگئی تھیں۔ بالکل اپنے باپ کی طرح
بٹیاں شادی کے بعد سسرال جاکر بس گئیں کیوں کہ دستور یہی تھا۔ وگرنہ کسی اور کے گھر جا کر بَستیں تو بِستی کا مقام تھا۔ اور بیٹے بھی روایت...
Tuesday, 27 November 2012
انوکھا بیج
زید گملے والی کہانی سے مالک بن بیٹھا اور سابقہ مالک کی طرح اس نے بھی شادی نہ کی اور نہ ہی اسکی کوئی اولاد ہوئی۔ دور اندیش ہوتا تو شادی کرتا، ملوکیت کو فروغ دیتا اور اس جھنجٹ سے جان چھڑاتا مگر بوڑھا ہونے پر وہی مسئلہ دوبارہ درپیش آگیا۔ سست تو ازل سے تھا۔ نئی ترکیب کہاں سوچتا سو پرانی والی میں ہی ترمیم کرلی۔ اور بیج تمام ڈائریکٹرز کے درمیان بانٹ دیا۔ خوبی قسمت دیکھیئے کہ تمام پرانے ڈائریکٹرز اپنے ساتھ ہونے والی ظلم کی داستا ں مشہور کر گئے تھے۔ تو تمام نئے اس کمینگی سے بخوبی آگاہ تھے۔کچھ عرصہ بعد...
آئی پیڈ-III
ایک پرائمری اسکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ وہ ایک مضمون لکھیں کہ وہ (بچے) کیا چاہتے ہیں کہ ان کا خدا ان کے لیے کرے۔
سب بچوں نے مضمون لکھا وہ تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی اس دوران ایک مضمون نے اس کو آبدیدہ کردیا اور بے اختیاری میں اس کے آنسو نکل آئے
اس کا شوہر اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کے آنسو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا ہوا؟
...
ٹیچر بولی یہ مضمون پڑھیے یہ ایک بچے نے مضمون لکھا ہے
شوہر نے مضمون لیکر پڑھنا شروع کیا اس میں لکھا تھا “اے خدا آج میں آپ سے بہت خاص...
ماسٹر
قد کے معاملے میں انشاء کے قول کی مثال کہ ٹانگیں زمیں تک پہنچ جائیں اور دیکھنے میں یوسفی کے اس قول کی زندہ تصویر کہ کبھی کسی بڑے آدمی کا سایہ تک نہیں پڑنے پایا۔مگر آدمی بہت خاص۔ یوں سمجھیئے کہ ارسطو ، بقراط اور سقراط جن مضامین میں کمزور تھے یہ حضرت ان میں ید طولی رکھتے تھے۔ ایک بار اک جاہل مطلق کواسکا مطلب سمجھانے بیٹھے تو فرمانے لگے کہ بھائی قانون کے لمبے ہاتھوں والی بات ہی سمجھو۔ اس تشریح پر ہم کافی دیر تک سر دھنتے رہے۔ آخرخود ہی تنگ آ کر کہنے لگے کہ میاں بس کچھ احباب سمجھ رہے ہیں تم لوگوں...
خط! اک دوست کے نام
ریاض میں مقیم عمرے پر جانے والے اک دوست کے نام
السلام و علیکم!
میاں کیسے ہو؟ آخری اطلاعات تک تو بالکل ٹھیک تھے۔ مگر آخری خط سے ذہنی طبیعت رواں نہیں لگتی۔ یہ چوکور ڈبہ بھی بھئی کمال کی چیز ہے۔ کہاں ہم گھنٹوں خطابت میں سر کھپاتے۔ ورق کے انتخاب پر دماغ و دل مناظرے کرتے۔ پھر قاصد کے نخرے الگ۔ مگر میاں یہ موٹا بھائی نے تو اس سے روشناس کرا کر کمال کر دیا ہے۔ اک جھاڑو سا پکڑ کر ساری لائنوں پر پھیر دو تو بس خطاطی اور۔ ایسا برق رفتا ر خطاط تو کبھی نہ دیکھا تھا نہ سنا ۔ اور قاصد کی برق رفتاری تو...
قصہ اک شفٹنگ کا۔ راوی نیرنگ خیال
اس قصے سے پہلے اپنے موٹا بھائی کا تعارف کروا دیتے ہیں کہ معاملہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ اگر پطرس کے مرزا ، اور شفیق الرحمان کے مقصود گھوڑے سے واقفیت ہے تو جان لیجیئے کہ ان دونوں کرداروں کو جمع کر کے انشاء کے استاد مرحوم سے تقسیم کیا جائے تو نتیجہ کے طور پر موٹا بھائی نکلیں گے۔جراثیم کے اتنے خلاف کہ روٹی کو بھی پکا پکا کر جراثیم جلا دیتے ہیں اور سالن میں چند قطرے ڈیٹول ملانا نہیں بھولتے۔ فرمانا یہ کہ صحت کے لیئے مفید ہے تبھی تو اتنی بڑی کمپنی ہر کام سے پہلے ڈیٹول ملانے کا کہتی ہے۔ ہر بات پر ضد کرنا...