Friday, 30 November 2012

کم علم کی بحث

11 comments
میں مسجد میں تحیۃ المسجد ادا کر رہا تھا۔ اس ذکر سے نمودونمائش ہرگز مقصود نہیں۔ کیوں کہ اگر یہی مقصد ہوتا تو میں تہجد، اشراق، چاشت، اوابین اور تحیتہ الوضو کا بھی لازمی ذکر کرتا۔ مگر الحمداللہ چونکہ طبیعت ریاکاری سے بالکل پاک ہے تو صرف واقعہ بیان کرنا مقصد ہے۔ ہاں کوئی اسے نیکی کی ترغیب سمجھے تو اپنی نیک نیتی کا صلہ پائے گا۔ہاں تو میں بات کر رہا تھا کہ دوران نماز سگریٹ کی ناگوار بدبو نے مجھے بے چین کر کے رکھ دیا۔ عرصہ ہوا جب حج سے واپس آیا تو پکے سے توبہ کر چکا تھا۔ لیکن آج یہ بدبو دوبارہ اعصاب پر...

Wednesday, 28 November 2012

مظلوم غلام اور احمق دانا (شیخ سعدی کی روح سے معذرت کے ساتھ)

15 comments
ایک بادشاہ کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہا تھا۔ کشتی اس لیئے کہ کروز اور لانچ کا دور نہ تھا۔ آبدوز بھی ایجاد نہ ہوئی تھی۔ کچھ درباری اور چند غلام بھی ساتھ تھے۔ وہ ساتھ نہ ہوتے تو پروٹو کول کسطرح پورا ہوتا۔ سب کہتے کتنا غریب بادشاہ ہے۔ بغیر پروٹوکول کے پھرتا ہے۔ یہ سارے غلام ایسے تھے جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھے تھے اور شوق میں ساتھ چلے آئے تھے اور اب پچھتا رہے تھے۔ مگر اک ایسا تھا جو اپنا خوف نہ چھپا پا رہا تھا۔ اور ڈوب جانے کے خوف سے رو رہا تھا۔ موت برحق ہے والے مقولے پر اس کا ایمان...

حکایات کا بے جا استعمال

2 comments
ایک بچہ بہت بدتمیز اور غصے کا تیز تھا۔ اسے بات بے بات فوراً غصہ آجاتا ، وہ تمام عوامل جن کی وجہ سے وہ اسقدر بدتمیز اور غصیلہ تھا اگران کا ذمہ دار والدین کو ٹھہرایا جائے گا تو کہانی آگے نہ بڑھے گی حالانکہ سچ بات یہی ہے۔ خیر حکایت آگے بڑھانے کو ہم وجہ کو نظر انداز کرتے ہیں تا کہ لوگوں کو عبرت آموز حکایت پڑھنے کو ملے۔ اور دیکھیں کے بچے کے والدین کو احساس ہوا یا نہیں اپنی کوتاہیوں کا اور انہوں نے اس کے سدھار کے لیئے کوئی کوشش کی یا نہیں۔ اور اگر ایسی حکایات نہ بنے گیں تو لوگوں کا کیا بنے گا۔...

انداز بیاں اور

0 comments
کہتے ہیں کسی ملک پر اک بادشاہ کی حکومت تھی۔ یاد رہے یہ ایس-ایچ –او بادشاہ نہ تھا۔ کیوں کہ ہمارے ہاں عام روایت ہے کہ ایس-ایچ-او بھی اپنے علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے۔ بادشاہ دن بھر امور مملکت میں مشغول رہتا عبادت گزار بھی تھا ایسا لوگ کہتے۔شکار کا بھی شوقین تھا۔ بندھے ہرن مارنے میں کمال مہارت تھی۔ ان تمام کارگزاریوں کے بعد رات کو تھک ہار کر سوتا۔ گہری نیند اتنی کہ سویا مویا والہ مقولہ اس کو دیکھ کر ہی بنا ہوگا۔ خواب اول تو آتے ہی نہ ہونگے اس قدر گہری نیند میں ؛اور اگر اک آدھا بھولا بھٹکا خواب آ...

سادہ منش امام

4 comments
سالوں پہلے کی بات ہے جب مولوی لوگوں کو بھی باہر کے ویزے مل جاتے تھے تب اک ایسا ہی بھولا بھٹکا مولوی لوگوں کی باتوں میں آ کر یہاں کی پیری جیسی رنگین مسند تیاگ کر لندن جیسے بے رونق اور بد عقیدہ شہر میں صرف اور صرف اسلام کی سرفرازی کے لیئے جا پہنچا۔ڈیوٹی پر آنے جانے کے لیئے عوامی بسوں کا استعمال معمول بن گیا کیوں کہ اب کوئی مرید تو تھا نہیں جو اپنی پجارو اسی کام کے لیئے وقف کر رکھتا۔ شروع میں یہ فضا دل کو راس نہ آئی مگر بیچ بیچ میں جب عوام کی چال چلن اور بازاروں کی رونق دیکھی تو رفتہ رفتہ دل کو...

پلاسٹک کی پلیٹ

2 comments
پلاسٹک کی پلیٹ کسی کام کی نہیں ہے۔ ---------------------------------------- یہ اس آدمی کے بچے کا قصہ ہےجس کے بڈھے باپ کے ساتھ کیئے گئے ناروا سلوک کی دل ہلا دینے والی داستاں آپ نے پڑھ رکھی ہوگی۔ باپ کی طرح وہ ہر طرح سے خوش حال تھا اور وجہ ورثہ میں ملنے والی بے بہا دولت تھی ۔ اس کی زندگی ہی میں اس کی ساری اولاد کی شادیاں ہوگئی تھیں۔ بالکل اپنے باپ کی طرح بٹیاں شادی کے بعد سسرال جاکر بس گئیں کیوں کہ دستور یہی تھا۔ وگرنہ کسی اور کے گھر جا کر بَستیں تو بِستی کا مقام تھا۔ اور بیٹے بھی روایت...

Tuesday, 27 November 2012

انوکھا بیج

2 comments
زید گملے والی کہانی سے مالک بن بیٹھا اور سابقہ مالک کی طرح اس نے بھی شادی نہ کی اور نہ ہی اسکی کوئی اولاد ہوئی۔ دور اندیش ہوتا تو شادی کرتا، ملوکیت کو فروغ دیتا اور اس جھنجٹ سے جان چھڑاتا مگر بوڑھا ہونے پر وہی مسئلہ دوبارہ درپیش آگیا۔ سست تو ازل سے تھا۔ نئی ترکیب کہاں سوچتا سو پرانی والی میں ہی ترمیم کرلی۔ اور بیج تمام ڈائریکٹرز کے درمیان بانٹ دیا۔ خوبی قسمت دیکھیئے کہ تمام پرانے ڈائریکٹرز اپنے ساتھ ہونے والی ظلم کی داستا ں مشہور کر گئے تھے۔ تو تمام نئے اس کمینگی سے بخوبی آگاہ تھے۔کچھ عرصہ بعد...

آئی پیڈ-III

0 comments
ایک پرائمری اسکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ وہ ایک مضمون لکھیں کہ وہ (بچے) کیا چاہتے ہیں کہ ان کا خدا ان کے لیے کرے۔ سب بچوں نے مضمون لکھا وہ تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی اس دوران ایک مضمون نے اس کو آبدیدہ کردیا اور بے اختیاری میں اس کے آنسو نکل آئے اس کا شوہر اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کے آنسو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا ہوا؟ ... ٹیچر بولی یہ مضمون پڑھیے یہ ایک بچے نے مضمون لکھا ہے شوہر نے مضمون لیکر پڑھنا شروع کیا اس میں لکھا تھا “اے خدا آج میں آپ سے بہت خاص...

ماسٹر

1 comments
قد کے معاملے میں انشاء کے قول کی مثال کہ ٹانگیں زمیں تک پہنچ جائیں اور دیکھنے میں یوسفی کے اس قول کی زندہ تصویر کہ کبھی کسی بڑے آدمی کا سایہ تک نہیں پڑنے پایا۔مگر آدمی بہت خاص۔ یوں سمجھیئے کہ ارسطو ، بقراط اور سقراط جن مضامین میں کمزور تھے یہ حضرت ان میں ید طولی رکھتے تھے۔ ایک بار اک جاہل مطلق کواسکا مطلب سمجھانے بیٹھے تو فرمانے لگے کہ بھائی قانون کے لمبے ہاتھوں والی بات ہی سمجھو۔ اس تشریح پر ہم کافی دیر تک سر دھنتے رہے۔ آخرخود ہی تنگ آ کر کہنے لگے کہ میاں بس کچھ احباب سمجھ رہے ہیں تم لوگوں...

خط! اک دوست کے نام

1 comments
ریاض میں مقیم عمرے پر جانے والے اک دوست کے نام السلام و علیکم! میاں کیسے ہو؟ آخری اطلاعات تک تو بالکل ٹھیک تھے۔ مگر آخری خط سے ذہنی طبیعت رواں نہیں لگتی۔ یہ چوکور ڈبہ بھی بھئی کمال کی چیز ہے۔ کہاں ہم گھنٹوں خطابت میں سر کھپاتے۔ ورق کے انتخاب پر دماغ و دل مناظرے کرتے۔ پھر قاصد کے نخرے الگ۔ مگر میاں یہ موٹا بھائی نے تو اس سے روشناس کرا کر کمال کر دیا ہے۔ اک جھاڑو سا پکڑ کر ساری لائنوں پر پھیر دو تو بس خطاطی اور۔ ایسا برق رفتا ر خطاط تو کبھی نہ دیکھا تھا نہ سنا ۔ اور قاصد کی برق رفتاری تو...

قصہ اک شفٹنگ کا۔ راوی نیرنگ خیال

1 comments
اس قصے سے پہلے اپنے موٹا بھائی کا تعارف کروا دیتے ہیں کہ معاملہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ اگر پطرس کے مرزا ، اور شفیق الرحمان کے مقصود گھوڑے سے واقفیت ہے تو جان لیجیئے کہ ان دونوں کرداروں کو جمع کر کے انشاء کے استاد مرحوم سے تقسیم کیا جائے تو نتیجہ کے طور پر موٹا بھائی نکلیں گے۔جراثیم کے اتنے خلاف کہ روٹی کو بھی پکا پکا کر جراثیم جلا دیتے ہیں اور سالن میں چند قطرے ڈیٹول ملانا نہیں بھولتے۔ فرمانا یہ کہ صحت کے لیئے مفید ہے تبھی تو اتنی بڑی کمپنی ہر کام سے پہلے ڈیٹول ملانے کا کہتی ہے۔ ہر بات پر ضد کرنا...