Thursday 11 September 2014

آنکھیں کس نے بند کیں

0 comments
"صرف مشترکہ کوششوں اور مقدر پر یقین کے ساتھ ہی ہم اپنے خوابوں کے پاکستان کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔"
یہ آخری ریکارڈ شدہ الفاظ تھے اس عظیم لیڈر کے جس نے پاکستان کے قیام کے لیے چلنے والی تحریک کی قیادت کی تھی۔ جو اس تحریک آزادی کا  روح رواں تھا۔  ایک انگریز مفکر نے کہا تھاتم خوش قسمت ہو اگر بلند مقصد رکھتے ہو کہ اکثریت تو کوئی مقصد ہی نہیں رکھتی۔ خواب دیکھنا اور پھر خواب کی تعبیر بھی حاصل کر لینا بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ اول تو بہت سے لوگ خواب ہی نہیں دیکھ پاتے۔ اور جو کچھ مثبت اور بلند خواب  دیکھ لیتے ہیں۔ ان کی تعبیر حاصل کرنے میں ہی فنا ہو جاتے ہیں۔

کسی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے محسنوں کو فراموش کردے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسی اقوام زیادہ دیر تک سانس نہیں لے پائیں۔ وقت نے ان کو بری طرح کچل دیا۔ اور ان کا وجود تاریخ میں ایک ٹھٹول بن گیا۔ جب آپ اپنے محسنوں کو یاد نہیں رکھ سکتے۔ تو پھر آپ کس کو یاد رکھیں گے۔کوئی بھی رہنما ہو۔ قائد ہو۔ اس کو برا بھلا کہنے والے لوگ موجود رہتے ہیں۔ یہی تو وہ بادِ مخالف ہے جو ان  کی پرواز کو اور اونچا کر دیتی ہے۔ لیکن جب محبت کرنے والے لب بھی خاموش ہوجائیں۔ عظیم رہنماؤں  کا تصور ذہن سے محو ہوتا چلا جائے۔ پھر تنزلی کی منازل کہیں زیادہ برق رفتاری سے طے ہوجاتی ہیں۔

کسی قائد کو بھلا دینا یہ نہیں کہ اس کا نام لوگ بھلا دیں۔ یا اس کی تاریخ وفات و پیدائش بھلا دیں۔ بلکہ اس کو بھلانا یہ ہے کہ اس کے افکار کو بھلا دیا جائے۔ اس نے جس راہ پر لوگوں کی رہنمائی کی ہو اس راہ کو ترک کر دیا جائے۔ ان تمام خوابوں منصوبوں کو پس پشت ڈال دیا جائے جن پر وہ عمل پیرا تھا۔ اور ان تمام مقاصد کو بھلا دیا جائے جن کے لیے وہ دن رات کوشاں تھا۔

اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں تو ہم نے قائد کے آنکھیں بند کرتے ہی ان کی طرف سے ان کے افکار کی طرف سے ان کے خیالات کی طرف سے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ ہم نے وہ تمام منصوبے وہ تمام کام اس وقت ہی پس پشت ڈال دیے تھے۔ جن پر عمل کر کے ہم دنیا میں بلند مقام حاصل کر سکتے تھے۔ ترقی کی راہ پر دنیا میں نام کما سکتے تھے۔ آنکھیں قائد نے نہیں ہم نے بند کی تھیں۔ اور قائد کی وفات سے لے کر اب تک ہماری چھیاسٹھ سالہ تاریخ شاہد ہے کہ ہم پل پل مرے ہیں۔ ہم کبھی جیے ہی نہیں۔ ہم ابھی تک انہی مسائل میں الجھے ہیں جن میں ہم اس وقت الجھے تھے۔ کسی بھی بڑے رہنما کے افکار کو دفنا دینے سے وہ چھوٹا نہیں ہو جاتا۔ دفنانے والے چھوٹے ہوجاتے ہیں۔ وہ تو ان تمام باتوں سے بےنیاز ہوتا ہے۔ گیارہ سمتبر 1948 ہی وہ دن ہے جس دن اس ملک کے ایک عظیم رہنما، قائد محمد علی جناح ہم سے جدا ہو کر ابدی نیند سو گئے۔لیکن ان کے الفاظ ان کا کام تاریخ میں ان  کو ہمیشہ کے لیے امر کر گیا۔

جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں

Tuesday 9 September 2014

قوانینِ بحث برائے سوشل میڈیا

2 comments
کچھ عرصہ قبل شاید چند ماہ قبل میں نےاردومحفل کے قوانین  کا مذاق بنایا تھا۔ اور عہد حاضر میں رائج بحث کے طریقے بیان کیے تھے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے سیاسی تناؤ اور احباب کے انداز مباحث کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ یہ طریقے سب کے لیے متعارف کروا دینے چاہیے۔ سو مناسب ردّوبدل کے بعد  سوشل میڈیا کے کسی بھی گروپ، صفحے یا کسی بھی طرح کے مباحثے میں بحث کے اصول درج کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ اکثریت تو پہلے سے ہی ان پر عمل پیرا ہوگی۔ لیکن اگر نہیں ہے تو جلد از جلد ان اصولوں کو اپنا کربیمار اور غیر معیاری  مباحث کی فضا قائم کی جائے۔

قوانینِ بحث برائے سوشل میڈیا:
=================
  • آپ ایسا کوئی بھی مواد ارسال نہ کریں۔ جس سے کسی کی دل آزاری کا خدشہ نہ ہو۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکے۔ اس کارخیر میں حصہ لیجیے۔ لوگ آپ کی علمی قابلیت کے سامنے ایک تنکے کی طرح ہیں۔ ان کی رائے اور ان کا ارسال کردہ مواد سب بیکار ہے۔ ایسے لوگوں کو روکنے کا بہترین حل ان کی طبیعت صاف کرنا ہی ہے۔ سو بےدھڑک دل آزاری کیجیے۔ 
  • آپ نے وہ مثال تو سنی ہوگی کہ لاتوں کے بھوت ہاتھوں سے نہیں مانتے۔ سو بلاوجہ تو ایک طرف وجہ کے ساتھ بھی کسی سے خوش اخلاقی سے بات نہ کیجیے۔ ایسے تمام مراسلات جو کسی بھی گالی یا دھمکی سے خالی ہوں۔ اثر نہیں رکھتے۔ سو خوب دل کی بھڑاس نکالیے۔ اس کو اپنے ہی گھر کا مہمان خانہ سمجھیے۔ 
  • اگر آپ کو کسی رائے سے اختلاف ہے۔ یا کسی کم ذات نے آپ کی عالمانہ رائے سے اختلاف کی جسارت کی ہے۔ اس کو ناکوں چنے چبوا دیں۔ گفتگو کا رخ سیدھا اس کی ذات پر لائیں۔ اور اس کے خاندان کی سات پشتوں کو بےنقاب کر دیں۔ یقین مانیے کہ اعلیٰ ظرفی دنیا میں ایک تخیل سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ سو اگر کوئی ناصح بننے کی کوشش کرے۔ تو اس کو ناصح سے نفرت پر اکساتے اشعار سنا کر اپنے علم دوست ہونے کا ایسا ثبوت دیجیے۔ جس کی استنادی حثیت ہر شک و شبہ سے بالا تر ہو۔ 
  • عزت لو اور عزت دو جیسے فرسودہ محاورات صرف کتابوں میں ملتے ہیں۔ ڈنڈے اور گالیوں کے زور پر عزت کروائیے۔ 
  • جملہ حقوق محفوظ ہونے کا جملہ علم پر بندش کا ایک طریقہ ہے۔ سو کسی بھی کاپی رائٹ کی کبھی پرواہ مت کیجیے۔ جو دل کرتا ہو ارسال کیجیے۔ علم پھیلائیے۔ یہ سب پھندے علم کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ 
  • جس حد تک ممکن ہو کبھی اصل ارسال کرنے والے کا حوالہ مت دیجیے۔ اس سے ماحول خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔بلکہ دیگر شاعروں و ادیبوں کی تخلیقات کو اپنے نام سے پیش کیجیے۔ اور اگر کوئی کوتاہ بین آپ کو ادبی سرقے کی ملامت کرنے لگے۔ تو اس کےسامنے دل آزاری کے حوالے سے قرآن و سنت کے احکامات بیان کیجیے۔ یاد رکھیے کہ ایسی اکثر روایات بمعہ ترجمہ آسانی سے دستیاب ہیں۔ آپ کو اپنی عربی سے کم شناشائی کا غم نہیں ہونا چاہیے۔ 
  • یاد رکھیے کہ قرآن و احادیث پیش کرنے کے لیے خود کا ان پر عمل پیرا ہونا ضروری نہیں۔ سو بےدھڑک روایات پر روایات نقل کیجیے۔ اور اپنے عین اسلامی ہونے کا ثبوت رواداری اور تحمل جیسی غیر اسلامی روایات کی دھجیاں اڑا کر دیجیے۔ 
  • یہ بات یاد رکھیے کہ سب سے مزیدار اور چسکے دار مباحث مسلک وفرقے کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ سو جس حد تک ممکن ہو ان کا پرچار کیجیے۔ رسد کی خاطر پریشان مت ہوئیے۔ آپ جیسے علم دوستوں نے انٹرنیٹ ان دلائل سے بھر رکھا ہے۔ سو بس وہاں سے نقل کرتے آئیے۔ حسب ضرورت دوسروں کو کافر قرار دیتے رہیے یا ملعون۔ اور مسلکی ترویج میں خاطر خواہ حصہ ڈال کر عنداللہ ماجور ہوئیے۔ یعنی مذہب کی خدمت کے ساتھ ساتھ عاقبت بھی سنور جائے گی۔ 
  •  آپ کو احباب ملیں گے جو آپ کو کہیں گے کہ اس محفل کا کوئی مذہب نہیں۔ لیکن یہ مت بھولیے کہ محفلین کا ہے۔ سو گاہ گاہ لوگوں کے لیے مختلف عقائد کا تعین کرتے رہیے۔ یاد رکھیے کہ اسلام صرف اہل ہند اور خاص طور پر صرف اور صرف پاکستانیوں کا مذہب ہے۔ لہذا اگر کوئی اور دعوا کرے تو اس کو خوب رسوا کیجیے۔ اور اس کو یہودی، عیسائی، پارسی، دہریہ یا پھر فری میسن اور اس جیسے دیگر گروپس کی اعزازی رکنیت سے نوازتے رہیے۔ 
  • اپنے مطلب کی بات کے لئے " یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے" اور اختلاف کے لیے "ان کی کسی بھی بات سے خیر کا شاید ہی کوئی پہلو نکلے" جیسے محاورات کا ازبر ہونا نہایت ضروری ہے۔ 
  • جو موضوع پسند نہ ہو۔ اس کو برباد کر دیجیے۔ آخر کسی کو حق ہی کیا ہے کہ ایسا موضوع شروع کرے۔ جو کہ آپ جیسی علمی ہستی کو پسند نہیں۔ سو اس موضوع میں بھرپور کوشش سے ادھر ادھر سے مواد لا کر شامل کیجیے۔ بحث کو ہمیشہ ذاتی رخ دیجیے۔ اور اگر انتظامیہ کا کوئی رکن آپ کو روکنے کی جرات کرے۔ تو اس کو جانبدار اور منافق جیسے چھوٹے القابات دینے سے گریز نہ کیجیے۔ یقین مانیے ان القابات کے حصول کے لیے انتظامیہ دن رات کوشاں ہے۔ 
  • اگر کبھی احساس ہو کہ بحث مثبت رخ پر جا رہی ہے۔ اور بحث برائے بحث نہیں رہی تو ایسے دھاگوں میں مت جائیے۔ بلکہ ان لوگوں کو فارغ اور جاہل کہنے میں رتی بھر تامل مت کیجیے۔ یہ سوچیے کہ آپ کی رائے کے بغیر کوئی بھی علمی بحث کسی مثبت نتیجے پر کیسے پہنچ سکتی ہے۔ 
  • اگر کوئی گستاخ آپ کی علمی و ادبی کاوشوں پر اعتراض کی جرات کرے۔ تو اس کے منہ نہ لگیں۔ بلکہ قالو سلاما اور جواب جاہلاں جیسی زبان زد عام باتوں کا استعمال کریں۔ 
  • ایسا کوئی مراسلہ یا دھاگا جو کہ آپ دیگر اراکین یا محفل کی شان کے مطابق نہ پائیں۔ اس کے بارے میں انتظامیہ کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ آپ کون سا بولنا یا لکھنا نہیں جانتے۔ بس اوقات یاد دلا دیجیے ان لوگوں کو۔ اور ان کو دلائل و دیگر اراکین کے بارے میں رواداری ذرا انتہائی سخت لہجے میں سمجھائیے۔ جہاں ضرورت ہو پنجابی کی گالیوں کا بےدریغ استعمال کیجیے۔ 
  • ذاتی پیغامات کی سہولت صرف لڑکیوں سے گپ شپ کے لیے استعمال کیجیے۔ اگر کوئی مرد رکن آپ سے بات کا خواہاں ہے۔ تو اس کو کہیے کہ سب کے سامنے بات کرتے کیا موت پڑتی ہے۔ 
  • کسی بھی گروپ یا فورم   کی انتظامیہ کو کسی پیغام میں ردوبدل یا حذف کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تاکہ حق بات کا راستہ روکا جا سکے۔ سو ان کو منافق جھوٹے اور حق کو دبانے والے کہیے۔ جابجا ان کے خلاف زہر اگلئے۔ اور اگر پھر بھی وہ آپ سے معافی نہیں مانگتے۔ بلکہ آپ کو معطل کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ تو لعنت بھیجیے دنیا داری پر۔ اور کسی جنگل کی راہ لیجیے۔ ہاں جانے سے پہلے اس گروپ یا فورم کے تمام  اراکین پر تھوکنا مت بھولیے۔
اہم نوٹ: یہ تمام  قوانین محض تخیلاتی ہیں۔ کسی بھی قسم کی مشابہت محض اتفاقیہ ہوگی اور راقم اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔