Tuesday 19 August 2014

مچھلی پیڈیا

2 comments
ان صاحب کا تعارف لکھنے بیٹھوں تو صبح سے شام ہو جائے۔ بزرگ صورت جوان سیرت بہت دلچسپ آدمی ہیں۔ فرماتے مجھے دہرا فائدہ ہوتا ہے۔ بزرگوں کے سامنے چھوٹا اور جوانوں کے سامنے تجربہ کار کی حیثیت ہے۔ ہم نے جب عرض کیا کہ جملے میں جوانوں کے مقابلے بزرگ کا لفظ آنا چاہیے  تو گرم ہوگئے۔غصے سے کہنے لگے ابھی تو میں کڑیل جوان ہوں۔  ہمارے لئے یہ لفظ نیا تھا۔ ہم نے اس سے پہلے اڑیل اور مریل جیسے الفاظ ہی سن رکھے تھے۔ شکریہ ادا کیا کہ اگر کبھی شاعر بنے اور ان قوافی کے ساتھ شعر کہنے کا ارادہ ہوا تو تین اشعار میں تو قوافی درست ہی رہیں گے۔ اس  پر کہنے لگے غزل میں کم از کم بھی پانچ اشعار ہوتے ہیں اور  دو اور ہم قافیہ الفاظ بتائے۔ ہم نے کہا سرکار! ادب کے نام پر کیا کیا پڑھ رکھا ہے؟ تو ہنسنے لگے۔ کہتے چھوڑو سب جوانی کی باتیں ہیں۔ ہم نے عرض کی یعنی ابھی ابھی کی باتیں ہیں۔ تو ناراض ہوگئے۔ اور کہنے لگے بزرگوں کی باتوں پر گرفت کرتے ہو۔ ہم نے کہاحضور اتنی جلدی تو گرگٹ رنگ نہیں بدلتا جتنی تیزی سے آپ جوان سے بزرگ اور بزرگ سے جوان ہوئے جاتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک معروف گانے کے بول آپ کو دیکھ کر لکھے گئے ہیں۔ تو کہنے لگے میاں! شرم کرو۔ ہم نے کبھی مجرا نہیں دیکھا۔ آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہماری یہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ اگر دیکھا نہیں تو معلوم کیسے ہوا مجرے پر فلمایا گیا ہے۔ 
خیر یہ باتیں تو چلتی ہی رہیں گی لیکن موصوف کی زیادہ تر دلچسپی مچھلیوں میں دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ آج کے دور میں مچھلی اور اس کے شکار میں دلچسپی۔ بھئی جہاں لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کان کھجانے کو فرصت نہیں۔ اس کے لئے بھی الارم لگا رکھا ہے کہ کب کب کان کھجانا ہے۔ اس دور مصروف میں مچھلی کو تاڑنا ، پرکھنا  اور پھر شکار کھیلنا کافی وقت لینے والا کھیل ہے۔ ہم نے جب اس بابت استفسار کیا تو ہنس کر کہنے لگے۔ میاں یہ شکاری اور شکار کا رشتہ بڑا دلچسپ ہوتا ہے ۔ تم اس کو نہیں سمجھ سکتے جب تک شکار کرنا نہ جان لو۔ ہم نے کہا کہ دانہ ڈال کر چڑیاں تو ہم بھی پکڑتے رہے ہیں تو ہنس پڑے۔ کہتے میاں چڑیا کی عمر اور گوشت دونوں بہت کم ہوتے ہیں۔  ہم نے وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ ہم دو پروں والی چڑیا یہ جو اڑتی پھرتی ہے اس کی بات کر رہے ہیں۔ اس پر بھی مسکراہٹ میں کمی نہ ہوئی تو ہم نے مزید وضاحت کرنے سے گریز کیا۔ کہ اتنی وضاحتیں دینے سے ہمیں خطاوار ہی نہ سمجھ لیا جائے۔
سنا ہے جوانی میں آپ بہت شکاری طبع آدمی تھے۔ ہم نے معلومات کی غرض سے پوچھا۔
نہیں بچہ! جوانی نہیں۔ بچپن سے۔ پتا ہے آٹھ سال کی عمر میں پہلا شکار کیا تھا۔
ہم حیران رہ گئے۔ آٹھ سال کی عمر میں؟ واقعی! ہم نے انگوٹھا بدنداں ہوتے ہوئے کہا۔
ہاں! اور پرلطف بات یہ کہ پہلا شکار ہی کامیاب رہا ورنہ میں بھی شاعر ہوتا۔مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔
لیکن شادی تو آپ نے بہت  بعد میں کی تھی۔ ہمارا انداز استفہامیہ سا تھا۔
اس پر چونک اٹھے۔ کن خطوط پر سوچ رہے ہوں میاں! میں مچھلی کے شکار کی بات کر رہا ہوں۔
اوہ اچھا! ہم بھی اس انکشاف پر جوابی چونکے۔
موضوع پر واپس آتے ہوئے فرمانے لگے کہ مچھلی کو تاڑنا اور پرکھنا اضافی چیزیں ہیں۔ یہ شکاری کے بس میں نہیں ہوتیں۔ وہ عادت سے مجبور ہوتا ہے۔ اور اگر زیادہ دیر ہو جائے تو مچھلی کے نام پر کیکڑا پھنسنے  پر بھی  شکر بجا لاتا ہے۔ راقم نے عرض کی کہ اگر بس میں نہیں تو پھر شکار کیسے؟ کہنے لگے ارے بدھو! دیکھو! ایک ہوتی ہے کنڈی اور اس کے آگے لگانے کو بطور چارا کوئی کیچوا ہونا چاہیے۔ ہم نے عرض کی چارا تو ساگ ہونا چاہیے یا پھر پالک۔  کہنے لگے میاں! مچھلی پکڑنے اور پٹانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس کو ہم نے بیان سے زیادہ اعتراف سمجھا۔عرض کی کہ اگر کوئی مچھلی نہ پکڑ میں آئے۔ تو کہنے لگے پکڑ میں آئے نہ آئے، جس کے پاس کنڈی ہو وہ لگاتا ضرور ہے۔ میں تمہیں شکار اور مچھلیوں کے متعلق تھوڑی سی معلومات دیتا ہوں۔ پھر شکار پر چلیں گے۔ ہمارے اثبات میں سر ہلانے پر مچھلیات  کی پٹاری کھولی گئی۔
اکثر مچھلیاں گوشت خور ہوتی ہیں۔ اسی مسلم فطرت کو سامنے رکھ کر ان کو حلال نہیں کرنا پڑتا۔ یعنی وہ حلال ہی ہوتی ہیں۔ کیا تمام مچھلیاں ہلال ہوتی ہیں۔ ہم نے ابرو اچکاتے ہوئے پوچھا۔ تمام کا شکار تم نہیں کر سکتے۔ مچھلیوں کی بےتحاشہ اقسام ہیں۔سو جن کا شکار تم کر سکو۔ سمجھو وہی حلال ہوتی ہیں، لیکن ہم ان چند کا ہی تذکرہ کریں گے جو یہاں پکڑی جا سکتی ہیں۔ ڈولا مچھلی بغیر ڈولوں کے ہوتی ہیں۔ گفتگو کا آغاز کرتے  ہوئے فرمایا گیا۔
تو پھر اس کو ڈولا کیوں کہتے ہیں۔ ہم نے حیرت سے استفسار کیا۔
یار تم خود کو موسیٰ اور مجھے خضر مت سمجھو۔ اور بار بار سوال مت پوچھو،  خاموشی سے پوری بات سنو۔
اس کو ڈولا اس لیے نہیں کہتے کہ اس کے  بڑے بڑے ڈولے ہوتے ہیں بلکہ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ڈولتی رہتی ہے۔  اگر تمہاری مچھلیوں  سے سلام دعا نہیں ہے تو اس  مچھلی سے   بچا کرو۔ اگر یہ مچھلی کنڈی میں پھنس جائے تو بہتر ہے ڈوری توڑ کر کنڈی کا نقصان کر لیا کرو۔ لیکن اس مچھلی سے جتنا ممکن ہو دور رہو۔ اس کا شکار کبھی نہ کرو۔ اس میں گوشت زیادہ اور ٹھوس ہوتا ہے۔اور زیادہ عمر کے لوگوں کے لیے ہی مفید رہتا ہے۔ ہم بغیر کچھ سمجھے اپنا سر دائیں بائیں پنڈولم کی طرح ہلاتے رہے۔
جبکہ اس کے مقابلے میں پری مچھلی اس بامسمیٰ ہوتی ہے لیکن اس  مچھلی میں گوشت نہیں ہوتا۔ بس ذرا پھرتی اور چلبلی سی ہوتی ہے۔ بس کانٹے ہی کانٹے۔   یوں سمجھو کہ اگر ڈولا مچھلی تھیٹر کی ہیروئن ہے تو پری انڈین کرینہ۔ کترینہ کر لیں۔ ہم نے مچل کر کہا۔ اچھا چلو کترینہ ہی سہی۔ کیا یاد کرو گے۔ حاتم طائی کی قبر پر دعائے خیر کرتے ہوئے فرمانے لگے۔
کبھی شادی میں اگر تم پہلے میٹھا زردہ پلیٹ میں ڈال لاؤ۔ تو ساتھ والا تمہیں ویسے ہی بار بار پوچھتا رہے گا۔ زردہ اچھا بنا ہوا ہے۔ گلفام مچھلی بھی بالکل  زردے کی پلیٹ کی طرح توجہ کھینچتی ہے۔ پیلا سا رنگ ہوتا ہے۔ کچھ بدذوق اس کو یرقان زدہ بھی کہہ دیتے ہیں۔ چال ڈھال پنجابی ہیروئن والی سمجھو۔ تازہ پلی ہوئی۔ لیکن جب منہ مارو۔ میرا مطلب ہے پکا کر کھاؤ تو مزا نہیں آتا۔ بس ایویں عادت پوری کرنے والی بات ہے۔
ذرا سانس لینے کو رکے اور پھر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بولے۔ کالکی صرف نام کی کالکی نہیں ہوتی۔ پکی حبشن ہے۔ کالے رنگ پر تو بڑے گانے ہیں ہم نے کہا۔ تو فرمانے لگے او بئی تم نے پنجابی کی مثل سنی ہے۔ "منہ نہ متھا، جن پہاڑوں لتھا"۔ بالکل اس پر صادق آتی ہے۔ بدصورت ایسی کہ بڑے تو بڑے بچے بھی ڈر جائیں۔ اور ایسا نہیں کہ صرف ظاہر کالا ہے۔ باطن بھی سیاہ۔ کاٹو تو گوشت ایسا سیاہ نکلتا ہے کہ الاماں ولحفیظ۔ اور زہریلی ایسی ظالم کہ اول تو کوئی کھاتا نہیں۔ اگر بیچارہ بھوک کا مارا تھوڑا بہت کھا بھی لے تو کئی کئی دن بخار ہی نہیں اترتا۔یا حیرت! جیسا نقشہ آپ نے کھینچا ہے اس کے بعد اس کو کوئی کھاتا بھی ہوگا۔ ہم نے حیرانی سے سوال کیا۔ چھوڑو یار! دنیا میں کیا نہیں ہوتا، بھوک بڑی ظالم چیز ہے۔ ہم نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے اپنا کدو جیسا سر ہلا دیا۔
کھگّا اپنے پہلوانوں کی طرح ہوتی ہے۔ بات بے بات دوسری مچھلیوں سے لڑائی کرنے پر تیار۔ کچھ بھی مل جائے کھا لیتی ہے۔ لیکن ہوتی بہت سست ہے۔ سوائے لڑائی کے اور کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ اس کی شوخی و طراوت دیکھنی ہو تو کسی دوسری مچھلی سے لڑا کر دیکھو۔گوشت بہت ہی عجیب سا ذائقہ رکھتا ہے۔ اور اگر کھا لو تو سمجھو میٹھی لسی پی لی۔ بس سوئے رہو۔ اس کا گوشت کھا کر طبع پر جو سستی چھاتی ہے اس کا اثر مہینوں نہیں جاتا۔ لڑائی بھڑائی پر تیار رہنے کے باوجود یہ کنڈی لگ جانے پربلا چون و چرا کیے کھنچی چلی آتی ہے جیسے آدمی غلطی نہ ہونے کے باوجود عورت سے تھپڑ کھا کر سر جھکا کر پتلی گلی سے نکل جاتا ہے۔ اس لیئے اگر یہ کنڈی کے دائیں بائیں نظر آئے تو کنڈی وہاں سے اٹھا کر کہیں اور لگا لینی چاہیے۔
اس قدر عارفانہ معلومات ملنے پر مچھلیوں میں ہماری دلچسپی بھی بڑھ چلی تھی۔ ہم تو ایکوریم والی نمائشی مچھلیوں سے ہی واقف تھے جو کسی خاص یا عام کام نہیں آتی تھیں۔لہذا ہم نے فوراً مچھلی پیڈیا کے ساتھ شکار کا پروگرام بنا لیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے حصے میں کوئی پری یا گلفام آتی ہے یا ہم بھی کھگّا یا کالکی پکڑ کر واپسی کی راہ سدھارتے ہیں۔

اہم نوٹ: یہ کوئی خاکہ نہیں ہے۔
دوسرا اہم نوٹ: یہ تحریر 18 سال سے کم عمر لوگوں کے لیئے ہے۔ بڑی عمر کے لوگ اگر اس کو پڑھیں تو اپنی طرف سے معانی اخذ کرنے سے گریز کریں۔

تیسرا اہم نوٹ: بقیہ اگلے سال (اگلا سال آنے پر یہی سطر دوبارہ پڑھیں)

Thursday 7 August 2014

منحوس

6 comments
یوں تو دنیا میں بڑے بڑے منحوس گزرے ہوں گے۔ لیکن ہماری تو بات ہی الگ تھی۔ پیدائش سے لے کرجوانی تک ایسا کون سا کارنامہ تھا جو ہم نے کر نہیں دکھایا۔ یا کون سا ایسا کارنامہ تھا۔ جو ہم نے ہونے دیا ہو۔ ہردوصورت میں ہم نے ہمیشہ ستاروں کو گردش میں دیکھا۔ اس بات پر اعتبار اس حد تک بڑھ گیا کہ کبھی کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ ستارے گردش نہیں کرتے تو ہم نے اس سے  زندگی بھر مہذب انداز میں بات نہ کی۔ بلکہ آغاز گفتگو ہی یوں کرتے جیسے کوئی پرانے  دوست مل گئے ہوں۔ یوں تو منحوس کہلائے جانا کوئی قابل فخر بات معاشرے میں نہیں گردانی جاتی۔ لیکن ہم نے اس شعبہ میں اس قدر تسلسل سے کامیابی حاصل کی کہ لوگ جہاں دستخط میں "ننگ اسلاف"  لکھا کرتے تھے وہاں ہم نے تیرہ بخت لکھنا شروع کر دیا۔ اس کے ہمیں بہت سے فوائد حاصل ہوئے۔ مقامی احباب اس کو زیر سے پڑھتے۔ اور امریکی احباب زبر سے۔ ہر دوصورت میں معانی  میں کوئی فرق نہ آتا۔ محض امریکی احباب کا تذکرہ یوں بھی کرنا مناسب ہے کہ فیشن میں "ان" ہے۔
زندگی میں جب بھی کسی کام کی ٹھانی ہے۔ تو یوں سمجھیے کہ زمین و آسماں اس کام کی تکمیل میں حائل ہوگئے۔ مجال ہے جو کبھی کسی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا پائے ہوں۔ اہل خانہ و دیگر احباب اس عمل کو ہماری بد نیتی پر محمول کرتے۔ جب کہ ہمارا اس بات پر ایمان کامل تھا کہ " برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے"۔ بارہا یہ رمز سب کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم اپنی طرف سے بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ لیکن بدگمانوں کو یقین نہ آنا تھا سو نہ آیا۔ اور وہ یہی کہتے پائے جاتے کہ ہمیں معلوم ہے تم کام نہ کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہو۔ مجبورا پرانے درویشوں کی طرح ہم کو بھی بےنیازی کا نعرہ مستانہ مارنا پڑتا۔ رفتہ رفتہ ان نعروں کی وجہ سے ہم نیازیوں میں بھی غیر مقبول ہوتے چلے گئے۔
ابتداء میں تو ہم اس کو محض قدرت کی ستم ظریفی سمجھتے رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ پرانے واقعات کے تسلسل پر تجزیہ کرنے سے یہ حقیقت ہم پر عیاں ہوگئی کہ اگر کسی بھی کام کو کسی عبرت ناک انجام سے دوچار کرنا ہے تو ہمارا اس میں شامل ہونا ہی کافی ہے۔ یوں تو ہماری زندگی ان سیاہ کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن کچھ واقعات ایسے ہیں جن کے بعد ہم نے سوچا کہ اب ہم کو باقاعدہ ادارہ  بنا کر معاشرے میں نام کمانے کا سوچنا چاہیے۔ اور ایسے تمام لوگوں کی سرپرستی کرنی چاہیے۔ جو اپنی اس خوبی کو خامی سمجھتے آرہے ہیں۔ اور معاشرے کے ناروا سلوک کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم پر گاڑی سیکھنے کا بھوت سوار تھا۔ لیکن گاڑی تو بہت دور ہمیں کہیں سے مرزا کی سائیکل بھی میسر نہ تھی۔ طالبعلمی کا دور گزرنے کے بعد جب ہم کماؤ پوت بن گئے تو سوچا۔ اب ہی وہ دن ہیں۔ جب ہم اپنے اس شوق کی تکمیل کر سکتے ہیں۔ ہمیں کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ بس کسی بھی ڈرائیونگ اسکول کا دورہ کرنا ہے۔ اور پھر سڑکیں ہماری کاریگری دیکھیں گی۔ صبح کو دفتر جاتے اور شام کو واپس آتے ہمارا کام یہی رہ گیا  تھا کہ مارکیٹ  میں کہیں ڈرائیونگ اسکول کا بورڈ نظر آئے تو بس جھٹ سے شاگرد ہوجائیں۔ لیکن لگتا  یہ تھا کہ دنیا کے تمام ایسے اسکول بند ہوچکے ہیں۔ یا سنہری تالاب میں سنہری پھول کی حفاظت پر مامور بلا کی مانند ہماری طرح کے خوش نحوستیوں کا شکار ہو چکے تھے۔ کبھی خواب میں خود کو ڈرفٹنگ کرتے دیکھتے۔ تو کبھی ڈریک ریسز میں اپنا نام سب سے اونچا لکھا نظر آتا۔ لیکن وائے قسمت کہ یہ تو بہت دور ہمیں تو ابھی تک انجن اسٹارٹ کرنے کا بھی موقع نہ ملا تھا۔  ایک دن گھر کے قریب والی مارکیٹ کچھ سامان لینے گئے کہ  واپسی پر ایکا ایکی آنکھوں نے عجب منظر دیکھا۔ ایک گھر کے باہر ڈرائیونگ اسکول کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ اتنی قریب ڈرائیونگ اسکول۔ بچہ بغل میں اور ڈھونڈورا شہر میں۔ دل کیا کہ فوراً چار پانچ الٹی قلابازیاں لگائیں۔ لیکن  اس ڈر سے نہ لگائیں کہ اگر خدانخواستہ کوئی چوٹ لگ گئی تو ہمارا ڈرائیونگ سیکھنے کا کام اور لٹک جائے گا۔ بس فوراً فون نمبر نوٹ کیا اور وہیں کھڑے کھڑے کال ملا دی۔
دوسری طرف سے کسی لڑکے نے فون اٹھایا۔ ہیلو!
ہم نے اس کی سات پشتوں پر احسان کرتے ہوئے کہا۔ کہ وہ جس کی خاطر آپ نے بورڈ لگا رکھا تھا۔ وہ شاگرد خاص وہ خاقان کٹ مار آپ تک آپہنچا ہے۔
جی؟ دوسری طرف سے حیرت زدہ آواز سنائی دی۔
اوہ میاں! گاڑی چلانی سیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے اب سادہ الفاظ میں اس کو بات سمجھائی۔
اوہ اچھا! سر ایسا ہے کہ میں اس وقت تو شہر سے باہر ہوں۔ واپس آتا ہوں تو میں خود آپ کو فون کروں گا۔ اس نے جواب دیا۔
"سر" کہنے پر ہم اس کی آواز شناسی کے قائل ہوگئے۔ دل میں سوچا۔ لڑکا سمجھدار ہے۔ اور صاحب ِسماعت بھی۔ 
دو دن گزر گئے۔ ہم نے دوبارہ اس کو فون کیا۔ اس نے کہا کہ کل اتوار ہے۔ میں گھر پر ہوں گا۔ تو آپ سے ملاقات بھی ہوجائے گی۔ اور وہیں پر باقی معاملات بھی دیکھ لیں گے۔ لیکن اس کو کیا معلوم تھا کہ وہ ہم جیسی ہستی کے استاد ہونے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ یوں تو ہمیں معلوم تھا کہ کوئی چھوٹا موٹا سیہ بخت ہماری استادی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ لیکن ہم کسی کے حق میں اتنے زہر قاتل ثابت ہوں گے اس کا اندازہ ہمیں اتوار کو ہی ہوا۔
کوئی صبح سویرے 10 بجے کا وقت ہوگا۔ سورج آسمان پر انگڑائیاں لے رہا تھا۔ کبھی بادلوں کی چادر تان کر سو جاتا تو کبھی حالاتِ حاضرہ سے واقفیت کے لئے زمین پر نظر مار لیتا۔ ہم سورج کی اس آنکھ مچولی سے بےنیاز سرد موسم میں  نرم نرم دھوپ سینکنے کی نیت سے چھت پر کھڑے تھے۔  نیت کا واضح کرنا اس لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اور سورج کو ہماری اس نیت کا علم ہو چکا تھا تبھی   جب سےہم  چھت پر تھے۔ سورج صاحب بادلوں کی چادر تانے محو استراحت تھے۔ البتہ دائیں بائیں کی چھتوں سے کئی چاند دن کو آدھے آدھے نظر آرہے تھے۔ خدا گواہ ہے کہ اگر ہم چاند دیکھنے کی نیت اسی وقت کر لیتے تو اگلے کئی سال تک گرہن لگا رہتا۔ ابھی چھت پر اِدھر اُدھر دھوپ کی آس لئے کسی مناسب کونے کی تلاش میں تھے  کہ  کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے والے میدان میں ہجوم ہے۔ پولیس ہی پولیس۔  گاڑیاں ہی گاڑیاں۔ نظریں دوڑائیں کہ ہجوم کا مرکز معلوم کر سکیں۔ تو مرکز پر اسی اسکول والے گھر کا گماں گزرا۔ دل میں اندیشے جاگنے لگے۔
تو وہ نوجوان گزر گیا۔
افففف۔۔۔۔۔
دوسرا خیال آیا کہ پہلا خیال جھوٹ ہوگا۔ کچھ اور معاملہ ہوگا۔ اللہ رحم کرے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جنازہ لا کر میدان کے درمیان رکھا جا رہا ہے۔ فوراً  گھر سے نکلے ۔ وہاں تک پہنچتے پہنچتے جنازہ شروع ہونے والا تھا۔ خاموشی سے جنازہ پڑھا۔ اور بعد جنازہ ڈرتے ڈرتے ایک آدمی سے پوچھا۔ کس کا جنازہ ہے۔ اس نے کہا۔ رات سامنے ڈرائیونگ اسکول والوں کا لڑکا قتل ہوگیا ہے ۔وہ تو ہمیں اور بھی معلومات دینا چاہ رہا تھا۔ لیکن دل بجھ گیا تھا۔   خود کو مجرم سمجھتے ہم چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے میدان سے نکل آئے۔
اس واقعے کا ہم پر بہت اثر ہوا۔ ہم اپنے حق میں تو ہمیشہ ہی منحوس ثابت ہوتے تھے۔ لیکن اب تو ہماری نحوست کا دائرہ کار بہت بڑھتا جا رہا تھا۔ جس کام کا ارادہ کرتے تھے۔ اس سے جڑے لوگ بھی کسی نہ کسی مشکل میں گرفتار ہو جاتے تھے۔  ایک دن واپسی پر ہماری پک اینڈ ڈراپ والے نے ہم سے کہا کہ سر اگر آپ نے کل کہیں جانا ہے تو گاڑی اپنے پاس رکھ لیں۔ کیوں کہ  میچ کی وجہ سے میں نہیں آ سکوں  گا۔ میں نے کہا یار تم بےفکر رہو۔ میں اپنا بندوبست کر لوں گا۔ مجھے گاڑی چلانی نہیں آتی۔ اس پر اس نے کہا۔ یہ کون سا کام ہے۔ بس آج سے میں آپ کو گاڑی چلانی سکھاؤں گا۔ میں نے اسے ہمدردانہ نظروں سے دیکھا۔ میرے اس سے اچھے تعلقات تھے۔ اور میں واقعی نہیں چاہتا تھا کہ مجھے جلد ہی ایک نیا پک اینڈ ڈراپ والا ڈھونڈنا پڑے۔ لہذا میں نے اسے کہا۔ کہ پریشانی والی بات نہیں۔ میں جلد ہی کسی اسکول سے سیکھ لوں گا۔ لیکن اس نے کہا۔ نہیں۔ بس آج سے آپ کی کلاس شروع۔ اور ہمارے گھر کے باہر والی سڑک پر اتر کر  کہنے لگا۔ کہ ڈرائیونگ سیٹ پر آجائیں۔ میں ڈر رہا تھا۔ لیکن پھرسوچا کہ جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا۔ ابھی سیٹ پر بیٹھ کر انجن اسٹارٹ کیا۔ اس نے مجھے گاڑی کے گئیر، کلچ اور بریک کے متعلق ایک درس دیا۔ پھر اس نے کہا۔ کہ یہ سامنے والی گاڑیاں گزر جائیں تو ہم آرام آرام سے ڈرائیو کر کے گھر چلے جائیں گے۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ برے سے برا کیا ہو سکتا ہے۔ کہ ایسے میں پیچھے سے ایک کار آکر سامنے رکی۔جس کے اندر کوئی فیملی بیٹھی تھی اور بونٹ میں آگ لگی ہوئی تھی۔ ذرا تصور کیجیئے کہ بونٹ میں آگ۔ میرے لبوں پر ایک مسکراہٹ تیر گئی۔ بالکل ویسی جیسی شکار کو سامنے دیکھ کر شکاری کے ہونٹوں پر نمودار ہوتی ہوگی۔ ڈرائیور  اتر کر اس کی طرف بھاگا۔ اور ان سب کو نیچے اترنے کا کہہ کر فوراً آگ بجھانے لگا۔  میں فخریہ انداز میں اس گاڑی کو دیکھ کر یہ سوچ رہا تھا کہ کب سے گاڑی گرم ہوئی ہوگی۔ لیکن اس کو عین میرے سامنے آکر ہی رکنا تھا۔ ابھی اپنے اسی تیس فٹ کے نحوستی دائرہ پر سوچ رہا تھا کہ  اس فیملی میں سے ایک لڑکی میرے تک آئی اور کہنے لگی کہ آپ مجھے اپنا فون دیجیے۔ میں گھر فون کر سکوں۔ میں جیب سے فون نکال رہا تھا تو وہ کہنے لگی جلدی کرو۔ غالباً مجھے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا دیکھ کر اس نے مجھے ڈرائیور ہی سمجھا۔ میں نےبھی اس کے لیجے سے تاثر بھانپ کر مسکرا کے کہا۔  بی بی میں گاڑی ضرور چلاتا ہوں گا کرائے پر لیکن فون نہیں چلاتا۔ صبر کرو۔ فون دیکھ کر اس نے ایسی نظروں سے مجھے دیکھا گویا ابھی ابھی میں کسی کا فون چرا کر لایا ہوں۔ اس  کے بعد اس نے جب فون پکڑا تو اس کو آپریٹ کرنا بھی نہیں آتا تھا۔ آخر مجھے اتر کر اس کو نمبر ملا کر دینا پڑا۔ اور نحوست کی انتہا دیکھیے کہ اس نے بھی اپنے باپ کا نمبر ملایا۔ وائے حسرتا!
اس سے پہلے میں آپ کو کوئی اور واقعہ سناؤ ایک دوست کا تعارف کرواتا چلتا ہوں۔ ہمارے ایک بے حد محترم دوست ہیں۔ یہاں میں احباب کو بتاتا چلوں کہ ہمارے دوست بھی نحوست میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ اور کچھ چھوٹے موٹے کام نہیں کرتے۔ ان کی اس میدان میں گرفت ظاہر کرنے کو ذرا یہ واقعہ سنیے۔
موصوف  کا ایک جائز کام اٹکا ہوا تھا۔ اور کام نکالنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ آخر ان کو کسی نے مشورہ دیا کہ وہاں پر ایک آدمی ہے۔ جو کوئی عرصہ چالیس سال سے روپے لے کر لوگوں کے جائز و ناجائز کام کر رہا ہے۔ اور آج تک کسی کرپشن کے الزام میں نہیں پکڑ اگیا۔ اب ان کی بدقسمتی سمجھیے یا پھر اس بیچارے کی بدقسمتی۔ کہ یہ بذات خود اس کے پاس جا پہنچے۔ اور رقم اس کے ہاتھ تھما دی۔ اور مطمئن و شاداں گھر کو لوٹ آئے۔ الغرض قصہ مختصر کہ وہ آدمی چند دنوں میں ہی کرپشن کے الزام میں  معطل ہوگیا۔ شاید بات یہیں ختم ہوجاتی تو بھی بہتر ہوتا۔ لیکن اس کے بعد پتا چلا کہ وہ پاگل ہوگیا ہے۔ اور را ہ جاتی گاڑیوں کو پتھر مارتا ہے۔  ہنستے ہوئے فرمانے لگے کہ اگر یہ کام ہوجاتا تو میں حیرت سے مر جاتا۔ لہذا اس کی یاد تازہ رکھنے کو آج بھی ہم سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر پتھر پھینکتے ہیں اور اس جنتی راشی کے ایصال ثواب کا سامان کرتے ہیں۔
خیر ان کو ایک دن خیال آیا کہ  گبرئیل گارشیا   مارکیزکا آٹو گراف لینا چاہیے۔ میں نے ان سے عرض کی۔ یہ کون سا کام ہے۔ اس کے پرستار پوری دنیا میں ہیں۔ آخر بیرون ممالک والوں کے آٹو گراف کے لئے کوئی طریقہ تو ضرور وضع کیا ہوگا یار لوگوں نے۔ گوگل کا سہار لیا۔ اور اس پبلشر تک پہنچ گئے جس نے پورا طریقہ بتایا ہوا تھا۔ کہ کس طرح آٹو گراف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور اس میں کتنی دیر لگ سکتی ہے۔ بس جناب۔ ہمارے دوست جذباتی ہوگئے۔ اور کہنے لگے کہ بس ایک دو دن میں ہی میں یہ کام کرتا ہوں۔ یہاں ہم دونوں یہ بات بھول گئے کہ ہم تو اکیلے اکیلے ہی بہت بھاری ہیں۔ کجا یہ کہ دونوں ملکر کسی کام کو نبٹانے جائیں۔ الغرض قصہ  مختصرکہ دو ہی دن  بعد کہنے لگے کل انشاءاللہ یہ کام لازماً کر گزرنا ہے۔ اسی شام کو اکیلا بیٹھا تھا۔ یونہی ٹی وی پر مختلف چینل گھما  رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ گبرئیل گارشیا کی خبر چل رہی ہے۔ کہ کچھ دن سے علیل تھے۔ اور آج چل بسے۔ چند ثانیے تو افسوس سے خبر سنی اور اس کے بعد جب یہ خیال آیا شاید تب سے علیل ہیں۔ جب سے ہم نے آٹو گراف لینے کا طریقہ ڈھونڈا ہے۔ دوست نے کہا کہ یار آدمی ستاسی برس جیا۔ بس آٹو گراف کا سوچا تو دارِ فانی سے رخصت ہوگیا۔ اس کے بعد جو افسوس اور ہنسی کا ملاجلا دورہ پڑا ہے تو بس۔ 
اب احباب خود ہی بتائیں کہ ہم کو سست اور کام کو حیلے بہانوں سے ٹالنے والا کہنے والوں کو ہم کیا جواب دیں سوائے اس کے کہ اس نحوست کی دیوی کے چرنوں میں ہم نےاپنے  کتنے ہی  ارادوں  کا بلیدان دیا ہے۔  اب تو ادارہ ترقی منحوساں کا سنگ ِ بنیاد رکھے بنا چارہ نہیں۔